اپنے جاوید مرزا صاحب کو دور شباب میں خود پر بہت مان تھا اور ہر سو نازاں نازاں بحالت مستی و سرشاری پھرا کرتے تھے۔ محفل جان تھے ہر کسی کے مہمان تھے شہر بھر میں وسیلہ پہچان تھے ظرافت کے بھگوان تھے۔
قد دراز اور زبان شگفتگی میں قد سے بھی دراز۔ ہر موضوُع پر مثالی گرفت کا اعجاز۔ ہر صنف پر رکھتے مختلف انداز۔ ادب ہو کھیل ہو ہا کوئی ساز ۔
کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔عالم خود شناشی میں دندناتے تھے۔ پتھر پر لکیر ہوتا جو بھی فرماتے تھے۔ عوام قہقہے لگاتے جب یہ مسُکراتے تھے۔
ہر فن مولا تھے۔ خاموشی میں پھرپور رولا تھے۔ پل بھر میں رتی پل بھر میں تولا تھے۔ ہر عقل کی بھینس کیلیئے بنولہ تھے۔ کبھی براجمان تحت طاؤس کبھی اڑن کھٹولا تھے۔ ہر آستین کے سانپ کیلیئے نیولا تھے۔ برف سے بنے آگ بگولا تھے۔
اندھوں میں راجہ کانے تھے ۔ سیانوں میں بڑے سیانے تھے۔ میدان دوستی میں کھلاڑھی پرانے تھے۔” ابھی تو میں جوان ہوں”والے ترانے تھے۔
پاؤں زمین پر دماغ آسمان پر تھا ۔ ہر پری وش اُنکے دھیان میں تھا ۔ اسپ عشق کبھی نہ اپنے استھان پر تھا ۔ دل مسلسل ایک زلزلہ خلجان پر تھا۔
تو صاحبان نا قدردان بے مہربان ۔ مندرجہ بالا ” خصوصیات کے بعد جاوید مرزا صاحب کی جو مختصرا” تصویر بنتی ہے وہ یہی انکشاف کرتی ہے کہ گھمنڈی خود سر منُہ پھٹ پر جواب فٹافٹ ہر اک سے کھٹ پٹ ۔
خوُد ساختہ یوسف ثانی۔ بے لگام شریف جوانی۔ کسی کو بخشا تو خُدا کی مہربانی ۔ورنہ ظرافت کی طغیانی۔
زور بیانی میں ہم کہاں سے کہاں نکل گئے ۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی کہ ” فیر کی ہویا منُڈا تے ہے نا”
حسنین مرزا 16 جنوری 1984 کو پیدا ہوئے تو ماشااللہ بڑے ہی ” خرم نما ” اور صحت مند بھی تھے۔ جس کسی نے دیکھا یہی کہا یہ تو مستقبل کا عامر خان ہے۔ پاکستانی فلموں کا ” شان” ہے ۔ ” جسٹن بیئور” کی تان ہے۔ اپنے والد کی پہچان ہے۔
عوامی رائے سُن سُن کر جاوید مرزا پھوُلے نہ سماتے تھے اور ہر کسی کو فخرا” بتاتے تھے کہ کاکے کی مشہابت اپنے والد پر گئی ہے ( گویا ہماری ہی طرح ہینڈسم ہے)
لڑکا پیدا ہونے کی اطلاع ہم نے بزریعہ فون پاکستان میں سبھی کو دی اور مبارک بادیں وصُول کیں۔
آخر میں ایک فون اپنی بڑی ہمشیرہ کو فون کیا جو اُنکی ساس نے اٹُھایا ۔ انہیں ( ہمشیرہ کی ساس ) اپنے لڑکوں کی وجاہت رنگت اور خوبصورتی پر بہت ناز تھا ۔ انہوں نے پوُچھا ” کاکا کدھے تے گیا اے ( بچے کی مشہابت کس پر ہے؟) ہم نے ازحد درجہ انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسما” کہ ” خالہ جی مجھ پر گیا ہے” ابھی یہ خاکسارانہ جملہ ہوا میں ہی تھا کہ انہُوں نے فی البدیہ کہا ۔
” صبر کر فیر کی ہویا منڈا تے ہے نا ” ( صبر کرو پھر کیا ہوا لڑکا تو ہے نا )
صبر کی تلقین کرنے والے اس نشتر نے ہماری گذشتہ عمر بھر کی نخوت تکبر اور خود اعتمادی کے غبارے کی ہوا نکال دی اور ہم نے اسکے بعد ایسا صبر ایسا صبر کیا کہ ابھی تک صبر ہی کر رہے ہیں ۔
کہ ” فیر کی ہویا منڈا تے ہے نا”