سبق علم العروض

علم العروض(9) جمیل الرحمن

حروف علت اور تقطیع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الف۔۔۔۔۔ہم نے اس سے پہلے یہ طے کیا ہے کہ الف اگر شروع کلمہ یا لفظ میں آئے ۔بشرطیکہ وہ مصرع کا پہلا لفظ نہ ہو تو اسے گرایا جا سکتا ہے ۔کیونکہ وہ خود گر کر اپنی حرکت اپنے سے پہلے حرف کو منتقل کر دیتا ہے ۔جیسے کہ۔۔ہم۔۔کی ساکن میم ۔کے ساتھ ہوا۔

لیکن یہاں ایک اور بات سمجھنے کی ہے ۔الف ضروری نہیں کہ لفظ کا پہلا حرف ہی ہو ۔یہ پہلا،درمیانی یا آخری۔کوئی حرف بھی ہو سکتا ہے ۔تو پھر کیا ہو گا۔

سب سے اہم بات اس سلسلے میں یاد رکھنے والی یہ ہے کہ اگرالف کسی لفظ کے درمیان یا وسط میں واقع ہو تو اسے ماسوائے چند الفاظ کے ہرگز ساقط نہیں کیا جا سکتا ۔کیونکہ ایسا کرنے سے اس لفظ کی شکل اس طرح بدل سکتی ہے کہ اس کے معنی ہی بدل جائیں ۔ذرا تصور کریں ۔اگر لفظ۔۔حال۔۔کا وسطی الف گرا دیا جائے تو وہ لفظ۔۔حل ۔۔میں تبدیل ہو جائے گا اور شعر یا تو مہمل ہو جائے گایا اس کے معانی ہی بدل جائیں گے ۔۔اگر لفظ۔۔جان۔۔۔لفظ جن ۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔اور لفظ ۔۔۔کام۔۔۔لفظ ۔۔کم ۔میں بدل جائے تو ظاہر ہے کہ ان الفاظ کے معانی وہ نہیں رہیں گے۔

صرف کچھ الفاظ ایسے ہیں جن میں وسطی الف کو ساقط کرنے سے ان کے معانی نہیں بدلتے اور وہ الفاظ مندرجہ ذیل ہیں۔

۔گناہ۔۔۔۔ الف گرنے کے بعد ۔۔۔۔ گنہ۔سیاہ۔۔۔الف ساقط ہونے کے بعد۔۔۔۔۔سیہ

۔راہ۔۔۔۔۔۔الف ساقط ہونے کے بعد۔۔۔رہ

تباہ۔۔۔۔الف گرنے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تبہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سپاہ۔۔۔۔الف گرنے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔سپہ

پڑھا اور لکھا جاتا ہے۔

بہر حال کسی بھی لفظ کے درمیانی الف کو گرانے کے سلسلے میں بنیادی اصول یہ یاد رکھئےے کہ اگر اس الف کو گرانے سے لفظ کی ہیئت اس طرح بدلتی ہو کہ اس کے معنی بدل جائیں تو اس کی قطعا اجازت نہیں ۔مثلا۔۔۔اگر۔۔ کاہ۔۔جس کا مطلب گھاس کا تنکا ہوتا ہے۔اس کا الف گرا دیا جائے تو وہ لفظ۔کہ ۔میں تبدیل ہوجائےگاجو وضاحت کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اس طرح کی صورتحال میں درمیانی الف کا گرانا ممنوع ہے۔

اوپر کچھ امثال درمیانی الف گرانے کی دی گئی ہیں ۔ان میں ایک بات نوٹ کیجئے کہ رہ،گنہ اور ان سے ملتے جلتے الفاظ میں جہاں الف گرایا گیا ہو ۔ہ مختفی کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔

۔۔۔۔۔الف بطور آخری حرف۔۔

۔۔۔۔اس مقام پر آپ کو یہ علم ہونا چاہئے کہ۔۔ مصدر ۔۔کیا ہوتا ہے اور ۔۔فعل ۔۔کسے کہتے ہیں۔تب ہی آپ اس الف کو گرانے یا نہ گرانے کے بارے میں سمجھ سکیں گے۔

مصدر۔۔۔۔کسی لفظ کی اصل بنیاد کو کہتے ہیں ۔جس سے اس لفظ کے افعال اور دیگر صیغے مشتق ہوتے ہیں۔اردو میں اس کی پہچان یہ ہے کہ جس لفظ کے آخر میں ۔۔۔نا۔۔۔آئے وہ مصدر کہلاتا ہے ۔مثلا ۔۔کرنا ۔ہونا ۔جانا۔وغیرہ وغیرہ

فعل۔۔ اس کلمے کو کہتے ہیں ۔جس میں کسی کام کا ہونا ،کرنا یا سہنا بہ اعتبار وقت پایا جائے۔۔مثلا ۔کرنا سے کیا یا کرتا ہے یا کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہونا سے ہوتا ہے ۔ہے،یا ہو گا۔وغیرہ وغیرہ

مصدر اور فعل کی تعریف جان لینے کے بعد اب آپ آخری الف کے بارے میں یہ سمجھ لیں کہ یہ گر تو سکتا ہے مگر اس کا گرانا ناگوار اور ممنوع سمجھا جاتا ہے ۔مگر جب آپ مشق کرین تو بے شک گرا لیں مگر ایسا کرنا جائز نہیں سمجھا جاتا ۔۔اسے ان امثال سے سمجھنے کی کوشش کریں۔

مصدر میں الف بطور آخری حرف۔۔۔خاک بھی ہوتا تو خاک در جاناں ہوتا۔

اس مثال میں ۔۔ہوتا۔۔مصدری لفظ ہے ۔جس کے آخر کا الف گرایا گیا ہے ۔اور جو اب پڑھنے میں اگلے حرف کے ساتھ مل کر ۔۔ت۔تو۔۔۔تتو کی آواز دے کر ناگوار فضا پیدا کر رہا ہے۔یعنی ۔۔ ہو تتو خاک در جاناں ہوتا۔

فعل میں الف بطور آخری حرف۔۔ …… ۔بھیجا ہے اس نے مرے خط کا جواب

اس میں بھیجا ۔۔کا لفظ ۔۔فعل کو ظاہر کر رہا ہے ۔مگر جب بھیجا کا الف ساقط ہو گا تو اس کی آواز کچھ ایسے نکلے گی۔۔۔بھیج ہے اس نے مرے خط کا

جواب ۔

میرا خیال ہے کہ اب آپ اس بات کو سمجھ گئے ہوں گے کہ مصادر و افعال کا آخری حرف گرانا کیوں معیوب ہے ۔

لفظ کے آخری الف کو صرف ایک ہی صورت میں گرانا جائز سمجھا گیا ہے ۔اور وہ تب جب وہ حرف تشبیہہ ہو ۔ یعنی لفظ ۔۔۔۔کا۔

مثال۔۔۔کسی کا حال تباہ دیکھا کسی کا نامہ سیاہ دیکھا

اس میں دوسرے ۔۔کا۔۔کا الف گرا کر اس مصرع کو ایسے پڑھا جائے گا۔

کسی کا حال تباہ دیکھا کسی ک نامہ سیاہ دیکھا۔

Leave a Comment