” جو لوگ خدا کی راہ میں اپنی جان قربان کرتے ہیں وہ شہادت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتے ہیں “
مسجد کے مرکزی ہال میں موجود سینکڑوں لوگ بڑی توجہ اورعقیدت سے مولوی اصغر الدین کا بیان سن رہے تھے
“شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔ اللہ کے حکم سے اسکو رزق ملتا رہتا ہے ”
اسکے علاوہ شہادت کے ادنیٰ درجات بھی ہیں جیسے
حصول علم کی راہ میں مرنے والا شہید کہلاتا ہے
جو جل کر مرجائے وہ بھی شہید ہوگا
جو ڈوب کر مر جائے یا پیٹ کی بیماری سے مرنے والا بھی شہید کہلائے گا۔
حاضرین کے چہرے یہ سوچ کر مسرت سے روشن ہوگئے کہ
مولوی صاحب کے بیان کے مطابق انکے کتنے ہی عزیز شہیدوں کے زمرے میں آتے ہیں ۔۔۔۔
” اور یہ دیکھئے عورتوں پر اللہ کا خاص احسان ۔۔۔۔۔ کہ جو عورت زچگی کی حالت میں مرے گی وہ بھی شہید کہلائے گی ”
اس بات کی گونج کے ساتھ ہی درمیانی صف میں سر جھکاکر بیٹھا ہوا ایک نوجوان جھٹکے سے چونکا اور بلا ارادہ کھڑا ہو کر ہاتھ لہرانے لگا ۔۔۔۔
مولوی صاحب سمیت تمام لوگوں نے اسے استفساری نظروں سے دیکھنا شروع کردیا ۔ ۔ ۔۔
اتنے لوگوں کی توجہ پر نوجوان گھبرایا گیا اور تھوک نگلتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
” مم مم میں یہ پوچھنا چاہتا تھا جناب کہ ۔ ۔ ۔۔ ۔ غیرت کے نام پر باپ بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والی عورت بھی کیا شہید کہلائے گی ؟؟؟؟”
حاضرین کی منتظر نظروں کا رخ اب مولوی صاحب کی طرف تھا جن کی پیشانی عرق آلود ہو رہی تھی ۔۔۔۔