آپ بھی غالباً اجتماع پر جا رہے ہیں۔ ادھیڑ عمر شخص نے ساتھ بیٹھے بزرگ سے پوچھا۔
جی الحمد اللہ۔میں ہر سال جاتا ہوں۔ بزرگ نے خوشدلی سے جواب دیا۔بس میں زیادہ تر لوگ سو رہے تھے۔ صرف یہی دو محو گفتگو تھے۔
یہ آپکی بیٹی ہیں۔؟ اچانک دوسرے شخص نے بزرگ کے پہلو میں بیٹھی لڑکی کی طرف اشارہ کیا جو ہاتھ گود میں دھرے شیشے کے پار دیکھ رہی تھی۔
جی یہ میری خوش بخت ہے۔اسے رشتے داروں کے ہاں چھوڑ کر اجتماع پر جاؤں گا۔ اسکا میرے سوا دنیا میں کوئی نہیں۔ بزرگ کے لہجے میں اداسی گھل گئی۔
کہیں رشتہ وغیرہ۔۔ دوسرے شخص نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
ابھی نہیں ہوا۔۔ سوچ رہا ہوں اجتماع میں بزرگوں سے مشورہ کرکے کسی نیک متقی اور صالح نوجوان کے نکاح میں دے دوں اپنی بیٹی۔ بزرگ نے کچھ دیر توقف کے بعد جواب دیا
دوسرا شخص کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ پھر ہچکچاتے ہوئے بولا۔
اگر آپ راضی ہوں تو میں خوش بخت کو اپنی بہو بنا لوں۔ میرا بیٹا بھی الحمد اللہ پڑھا لکھا صالح نوجوان ہے۔ یہیں موجود ہے۔ اس نے ایک طرف اشارہ کیا۔ بزرگ نے پیچھے مڑ کراک نظر نوجوان کو دیکھا پھرسر جھکا کر بھرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
جزاک اللہ۔ میری بچی شریف گھرانے کی بہو بنے مجھے اور کیا چاہئے۔ پر میری ایک خواہش ہے۔
آپکی ہر خواہش سر آنکھوں پر۔ دوسرے شخص نے فوراً کہا۔
میں چاہتا ہوں کہ نکاح ابھی ہو تاکہ میں اس فرض سے سبکدوش ہو کہ بقیہ زندگی تبلیغ کیلئے وقف کر سکوں۔ بزرگ نے کہا
مجھے کوئی اعتراض نہیں‘ پر آپ شرعاً خوش بخت سے پوچھ لیں۔آیا وہ راضی ہے۔؟ دوسرے شخص نے کہا۔
بزرگ نے اپنی بیٹی سے بات کی ۔اس نے شرماتے ہوئے سر جھکا لیا۔
چند لمحوں میں یہ بات پوری بس میں پھیل گئی۔ ڈرائیور سمیت تمام سواریاں اس انوکھے رشتے پر جوش و خوشی کا اظہار کرنے لگیں۔ بس رک چکی تھی۔ دولہا کو خوش بخت کے پہلو میں بٹھا دیا گیا۔ جولجاتے ہوئے سمٹتی چلی جا رہی تھی۔ بس میں موجود ایک مولوی صاحب نے ان دونوں کا نکاح پڑھوایا۔ ایجاب و قبول کے بعد ہرطرف مبارک سلامت کی صدائیں گونجنے لگیں۔
یہ مٹھائی میں گھر والوں کیلئے لے جا رہا تھا لیکن اس سے زیادہ پر مسرت موقع اور کیا آئیگا ۔ ایک صاحب مسکراتے ہوئے پچھلی سیٹوں سے برآمد ہوئے ۔ اسکے ہاتھ میں مٹھائی کے ڈبے تھے۔اس نے ایک ڈبا خوش بخت اور اسکے باپ کودیا جبکہ باقی مٹھائی تقسیم کر دی۔ لوگ مٹھائی کھاتے ہوئے کچھ دیراس نیک بندھن پر گفتگو کرتے رہے پھر خاموشی پھیلتی چلی گئی۔ چند منٹ بعد ہی تمام افراد بے سدھ پڑے تھے۔ مٹھائی اثر دکھا چکی تھی۔ خوش بخت‘اسکا باپ اورمٹھائی والا شخص کچھ دیر سواریوں کو دیکھتے رہے پھر تیزی سے سب کا سامان، نقدی اور زیورات ایک بیگ میں بھرنے لگے۔ مال سمیٹنے کے بعد وہ فوراً بس سے اترے اورسنسان رستے کی ویرانیوں میں گم ہو
گئے۔