مختصر کہانی مختصر کہانی تقریب ۲۰۱۵

ذاتِ العِماد

میں بھوک اور پیاس سے نڈھال کئی ایک گھنٹوں سے بلند و بالا پر شکوہ عمارتوں سے مزیں سنٹرل سٹی میں گھوم رہا تھا۔ نوکری کی تلاش میں سرگرداں آج پہلی بار اپنے حوصلے ٹوٹتے نظر آئے۔ میری کمر سے چپکے بیگ میں اب چند کتابیں ایک جوڑا کپڑے ، شیونگ کا سامان اور پرانے بسکٹوں کا چورا رہ گیا تھا۔
گو جیب میں چند سکے ابھی باقی تھے لیکن انکا استعمال ناگزیر حالات میں ہی کرنا ہوگا۔ دل و دماغ پر فکر کے گہرے سایے تھے۔ جوں جوں بدن ٹوٹ کر بکھر رہا تھا اس کے ذروں سے آس و امید کے پیڑ تناور ہو رہے تھے۔ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے میں نے کسی سٹور کے شیشے میں اپنا عکس دیکھا تو رک گیا۔ چہرے پر خود پسندی سے خود اکتسابی تک کے سفر کی داستان دیکھ کر مسکرایا، ماضی کے چند مشکل ترین مہینے تیز بھاگتی فلم کی طرح میرے ذہن میں کوندے اور میری زبان سے بے اختیار نکل گیا۔
’’ اوہ ۔۔۔ مائی گاڈ ،تم نے اس ملک میں آکر کیا جھک ماری ہے؟ ‘‘
پاس سے گزرتی ہوئی خوبصورت لباس میں ملبوس گورے رنگ کی کوئی پچاس پچپن سالہ عورت نے رک کر مجھے دیکھا اور کہا۔ ’’ کیا تم نے مجھے سے کچھ کہا ہے ؟ ‘‘
میں گھبرا سا گیا، غیر ملک میں کوئی مصیبت مول لینے کا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
’’ نہیں میڈم ! میں خودکلامی کر رہا تھا۔‘‘ میں نے سچ بول دیا۔
وہ مسکرائی اور کہنے لگی ۔ ’’ پریشان ہو کیا ؟ ‘‘
’’ جی ہاں ‘‘ ۔
’’ چلو ۔ ساتھ والے پارک میں چلتے ہیں وہاں بیٹھ کر تم سے باتیں ہونگی ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے مجھے کہا ۔ پھر بولی ’’ اچھا۔ رکو۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سامنے والے سٹور میں گھس گئی اور چند لمحوں میں ایک بڑا سا خاکی لفافہ ہاتھ میں لئے باہر نکل آئی۔ لفافہ اس نے مجھے تھما دیا اور خود میرا ہاتھ پکڑ کر ساتھ والی پتلی سی گلی میں مڑ گئی جس کے دورے سرے پر ایک وسیع پارک تھا۔ میں تجسس میں ڈوبا اسکے ساتھ چل رہا تھا کہ اس نے پارک میں داخل ہوتے ہی میرے بازو میں اپنا بازو حمائل کیا اور میرے کندھے سے یوں لگ گئی جیسے ہم صدیوں سے محبت کے مارے بچھڑے ساتھی رہے ہوں۔
چند قدم پر گھنے درخت کے سایہ میں لکڑی کا ایک بینچ ہمارا منتظر تھا جیسے، اس نے مجھے اپنی آنکھوں سے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میرے ساتھ اپنا کولھا جوڑ کر بیٹھ گئی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ وہ شاید جلدی میں ہے۔ اس نے بیٹھتے ہی خاکی لفافہ کھولا اور اس میں سے ایک بڑا برگر اور جوس کا گلاس مجھے سونپ دیا اور اپنے لئے ایک پلیٹ میں کچھ گوشت کے ٹکڑے الگ رکھ لئے۔ میں نے جلدی سے برگر کا ریپر اتارا اور اسے کھانا شروع کر دیا اور ساتھ ہی جوس کے گلاس کو منہ سے لگا لیا۔ میں پیٹ کی بھوک مٹا رہا تھا اور وہ میرے جسم سے لپٹی اپنی بھوک مٹا رہی تھی ابھی میں نے برگر ختم نہیں کیا تھا کہ اسکا ہاتھ میری پتلون میں جا چکا تھا۔ میرے اندر خوف کے کئی ایک سایے لہرا گئے جسے اس نے میرے چہرے پر دیکھ لئے تھے۔ اس نے جلدی سے اپنا پرس کھولا اور کئی ایک بڑے نوٹ مجھے تھما دیئے اور میری آنکھوں میں تشکر کی چمک دیکھ کر اس نے فوراً اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور مجھے بینچ پر گرا دیا۔
باہر نکلتے ہوئے میرے اندر مجبوری اور انجانے میں سرزد ہونے والے جرم اور خوف نے ہیجان پیدا کر دیا تھا کہ میری نظر پارک کے بورڈ پر پڑی جس پر لکھا تھا ’’ فری سیکس پارک ‘‘

Leave a Comment