اُس نے بیڈروم کی کھڑکی پرلگے پردے کوسرکا کردرزسےباہرجھانکاتوقع کےعین مطابق آمنےسامنے والے دونوں فلیٹوں کی بالکونیوں میں توطامینا کا کھیل زوروشورسےجاری تھاایک خُوش شکل نوجوان مسلسل سامنے والی بالکنی میں کھڑی نوجوان وحسین لڑکی کواشاروں وکنایوں سےاپنی جانب متوجہ کرنےمیں مشغول تھااوردوسری جانب کےردعمل سے بھی یہ ہی ظاہرہورہا تھا کہ دونوں طرف ہے آگ برابرلگی ہوئی۔ البتہ اتنا ضرورتھا کہ وہ دونوں ہی تھوڑی تھوڑی دیربعد بڑے ہی محتاط اندازمیں اِدھر اُدھردیکھ کراطمینان کرلیتےکہ کوئی اُنہیں دیکھ تونہیں رہا۔ اُس نے پردہ دوبارہ برابرکردیا اورآرام کرسی پرآبیٹھا۔ اُس کےچہرے پرایک آسودہ سی مسکراہٹ رقصاں تھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ سب دیکھ کربہت اطمینان حاصل ہوا ہو۔ وہ ہرروزہی اپنے بیڈ روم کی کھڑکی سے یہ منظردیکھا کرتا تھا اوراب اِس سلسلے کوچلے کچھ چارپانچ ماہ ہونے کوآئے تھےاُسے ایک بار پھریہ یقین ہو چلا تھا کہ اب بھی اِس خودغرض دنیا میں محبت ناہی ختم ہوئی ہےاورنا ہی محبت کرنے والے! اُنہیں سلام و پیام کا تبادلہ کرتے دیکھ کراُسےعجیب سی خوشی محسوس ہوتی، وہ اُنہیں نہ جانتے ہوئے بھی اُن کے ملن کی دعائیں مانگا کرتا۔ اسے اِن دونوں میں اپنا ماضی نظرآتا تھا۔ وہ اورمہتاب بھی توابتداء میں اِسی طرح اپنےاپنے گھروں کی بالکنیوں سے ایک دوسرے کو سلام وپیام بھیجا کرتے۔ پھر بات بالکنی سے بڑھ کررستورانوں، سنیماؤں اورپارکوں میں ہونے والی ملاقاتوں تک جا پہنچی۔ کھائیں تو دونوں ہی نےذندگی بھر ساتھ نبھانےکی قسمیں تھی۔ لیکن اب یہ اوربات ہےکےدونوں کےگھروالےاُس محبت کےشدیدمخالف ثابت ہوئے، صنفِ نازک ہونےکےناطے مہتاب گھروالوں کےدباؤ کےسامنے ذیادہ دنوں تک ٹھرنہ سکی اوریوں اُس کی پریت پرائی ہوگئی اُس بات کوآج دوعشرے بیت گئے تھے۔ لیکن نا تووہ اُسے بھول سکا تھا نا ہی پھراُس نے کسی اورطرف دیکھنا ہی گواراکیا۔ شاید وہ محبت میں بھی وحدانیت کا قائل تھا۔ وہ آج بھی اُن راستوں اورجگہوں پرجا کرگھنٹوں گزارتا جہاں کبھی وہ مہتاب کے ساتھ اپنی زندگی کےحسین ترین لمحات گزارچکا تھا۔ اب وہ اس نوخیزجوڑے کومحبت کی اٹکھلیاں کرتے دیکھ اپنی ناآسودہ محبت کےجذبے کی تسکین ہی توکررہا تھا۔ اُن دونوں کی اِس معصوم محبت میں اُسےاپنی گم گشتہ محبت کی پرچھائیاں نظرآتی وہ بےاختیاردعائیں کرنےلگتا کہ اےکاش، اُن کا بھی جنوں ناکام نہ ہو،اُس وقت کمرے میں دھیمی دھیمی آوازمیں نورجہاں کی گائی عبیداللہ علیم کی غزل گونج رہی تھی، تیرے پیارمیں رُسوا ہو کرجائیں کہاں دیوانے لوگ نہ جانے کتنا وقت گزرگیامگراُسےاحساس اس وقت ہواجب شام کےڈھلتے سائےنے اُس کےکمرے کی تاریکیوں میں اضافہ کردیا۔ “اوہ شام ہوگئی اورمجھےہاؤسنگ سوسائٹی کی سالانہ تقریبِ ملاقات میں شرکت بھی تو کرنی ہے”۔ وہ کوئی دوگھنٹوں بعدسوسائٹی کےکمیونٹی ہال جہاں تقریب کا اھتمام کیا گیا تھا پہنچا۔ ہال کے داخلی دروازے ہی پراسےانجمن کےعہدراران نےخوش آمدید کہا اورسیکریڑی آگے بڑھ کراس سے معانقہ کرتےہوئےبولا۔ ” آخاہ، زہےنصیب! مسعوداحمد صاحب تشریف لائے ہیں۔ آپ تو بس عید کا چاند ہوئے جاتے ہیں۔ دیکھ لیں سال کےسال تقریب میں ہی نظرآئے ہیں”سیکریڑی نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامااور یہ کہتے ہوئے ہال میں بیٹھے مہمانوں کی جانب چل دیا۔ “چلیئے میں آپ کا تعارف سوسائٹی میں نوآمدہ مکینوں سے کروادوں”۔ سامنے نشستوں پربیٹھے لوگوں میں اُسے وہ دونوں بھی نظرآئے۔ لیکن یہ کیا؟ وہ دونوں توایک دوسرے سےدوراوریکسرلاتعلق سے بنے بیٹھے تھے فوراًہی اسے اپنی حماقت کا احساس ہوا۔ ٹھیک ہی تو ہے، بھلا سب کی موجودگی میں وہ ایک دوسرے سے اپنا تعلق ظاہر کرکے لوگوں کی نظروں میں توآنے سےرہے”ان سےملیئے” سیکریڑی نے اُسی بالکنی والے نوجوان اورساتھ کھڑی معمولی صورت کی ایک نوجوان خاتون کا تعارف کرواتے ہوئے کہا، “یہ ہیں جناب اوربیگم عدنان”، پھر پچھلی نشستوں پربیٹھی بالکنی والی خُوبرو لڑکی اوراُس کے پہلو میں بیٹھے ایک قدرے بڑی عمرکےشخص کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا”اور یہ ہیں جناب اوربیگم مشکور”پھرسیکریڑی نے اُس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ “اورخواتین وحضرات یہ ہیں جناب مسعوداحمد”اورمسعوداحمد کا حال یہ تھا کہ اگرکاٹوتوبدن سے چھٹانک پھرخون بھی نانکلے۔