خدا جانے یہ گھٹن میرےاندرتھی یا باھرہی کی دنیا اتنی کثیف ہوگئی تھی مجھے سانس آسانی سے نہ آتا تھا ،ذرا فضا گرم ہوئی نہیں یا حبس کا موسم آیا نہیں کہ میں ہولائی ہولائی پھرتی،۔بہت سے لوگ تیزہواؤں اورطوفانوں سےڈرتے ہیں بچپن میں کسی سے سنا تھا کہ صاحب ایمان آندھی طوفان سےڈرتےہیں او رخدا کی پناہ طلب کرتے ہیں اب خدا جانے ہماری طبعیت کا معاملہ تھا کہ ایمان ہی میں کوئی کجی کہ جیسے ہی تیزہوا چلتی اورکالے سیاہ گہرے بادل آسمان پر چھاتے مجھ پرجیسے بے خودی کاساعالم طاری ہونے لگتا ہونے لگتا کمروں کے گھٹے گھٹے اورحبس زدہ ماحول سے اکتائی میں باھرصحن میں آ نکلتی اورمیری نظریں آسمان پرچھائے کالے سیاہ بادلوں میں خود کو تلاش کرنےلگتیں ۔۔۔۔۔۔۔سب سے بے خبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنےآپ میں مگن ۔
تبھی اماں کی خوفزدہ تیز آوازآتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”فوزیہ۔۔۔۔۔۔۔ باھربہت شدید طوفان ہے
کمرے میں آجاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھوکوئی چیز لگ جائے گی ۔”
اب اماں کو کیا پتہ ۔۔۔۔۔۔۔۔مجھےتوزندگی ہی کسی روگ کی طرح لگ گئی تھی،اندرہی اندرخون تھوکتی۔اورکس چیزنےلگنا ہے مجھےاور کیا بگاڑ لینا ہے میرا۔فوزیہ فوزیہ۔۔۔۔۔۔۔۔اماں باربارپکاررہی تھی
اماں کمرے میں میرادل گھبراتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔میں نہیں آؤں گی ،میں نےاماں کووہیں کھڑے کھڑےکمرےمیں آنے سےانکارکا فیصلہ سنا دیا۔
کمرے میں آجاؤ بچے ۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھوتوبجلی چمک رہی ہے ۔ ”
بجلی،،میں بےاختیارہنسی ۔۔۔۔۔سسسکی دبا کر
“بھلا بجلی مجھ سوختہ جاں کا اورکیا جلائے گی ؟” نہ وہ طورکا عشق ہےاورنہ ہی کوئی جلوہ ایسا۔
میرےاندرکی دنیاعجیب سی تھی۔
رشتوں کےسارےلیبل میری پیشانی کےساتھ چپکے ہوئےتھے
مگریہ لیبل زدہ ڈبہ اندرسے بالکل خالی تھا۔
جانے کیوں؟ میں خود سب میں موجودہوکربھی موجود نہ ہوتی تھی۔
اورسب میرےارد گرد رہ کربھی احساس کی برفزدگی دورنہ کرپاتےتھے
اماں مجھ سے بہت محبت کرتی تھیں ،اتنی کہ اگرمیں اس وقت سمجھ سکتی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہرباریہی ہوتا تھا ۔جب کبھی موسم اپنا موڈ بدلتا ۔۔۔اورکالےسیاہ بادل کسی دوردیس کے مسافرکی طرح آسمان پرنمودارہوتے،۔تیز ہوا چلتی، بجلی چمکتی تو میں دنیا سے بے خبرجیسےان بادلوں کے ساتھ ساتھ اڑنے لگتی،میں اس طرح تیزتیزسانس لیتی جیسے کوئی سرطان زدہ مریض تازہ خون پا کرزندگی کی کچھ مزید گھڑیاں جینےکی امنگ پالےمیرے پھپھڑے تازہ دم ہونے لگتے دل کی دھڑکنیں وقت کے سازپرکوئی انجانا سا گیت گانے لگتیں،اماں پکارتی رہ جاتیں۔
اس دن پھر ایسا ہوا تھا،میں کمرے میں بیٹھی ایک کتاب پڑھنےمیں مگن تھی کہ اچانک کچھ گرنے آواز آئی،میں چونک سی گئی،پھریہ آوازجیسے تھوڑی تھوڑی دیربعدآنے لگی۔
فوزیہ آندھی اور طوفان آ رہا ہے، بہت شدید، آپی کی کپکپاتی سی آوازآئی تومیں جوش سے باھرکی طرف بھاگی۔
آکسیجن بھری ہواسےملنے۔
سیاہ اورگھنگھورگھٹاؤں کےسنگ سنگ اڑنے۔
میرے صحن میں پہنچتے پہنچتے گھٹائیں جیسے مجھ سے ملنے نیچے زمین پرجھک آئی تھیں ۔بجلی کی لپک جھپک جاری تھی۔
میں جیسے بادلوں میں داخل ہوگئی۔
فوزیہ ۔۔فوزیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بچےباھر بہت شدید طوفان ہے۔اندر آجاؤ بچے۔
کوئی چیزلگ جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔بجلی چمک رہی ہے بچےاندرآجاؤ۔
میں اس بے خودی کےعالم میں بھی اماں کی محبت بھری خوفزدہ آوازسننےکی منتظر تھی بہت دیرہوگئی مگرکوئی آوازنہ آئی اماں مجھے پکارکیوں نہیں رہیں میرادل بےچین سا ہو گیا،۔کیا اماں کوطوفان نظر نہیں آ رہا ۔ بجلی چمکتی دکھائی نہیں دے رہی
دل کی شریانوں میں دوڑتا خون زہرآلود سا ہونےلگا،دھڑکنیں گنگنانابھول گئیں میں بادلوں سےجیسے ہاتھ چھڑانےلگی۔
“اماں مجھے پکارکیوں نہیں رہیں ”
تبھی میرے کانوں کے پاس سے گزرتی ہوا نےسرگوشی کی ۔۔۔۔۔۔”اب تمہیں کوئی نہیں پکارے گا فوزیہ ” تمہیں پکارنے والی ، تمہاری فکرکرنےوالی ہستی تو کب کی چلی گئ دنیا سے، دعاؤں کا سائبان اٹھ چکا تمہارے سر سے،کوئی گولہ سا مجھے اپنے حلق میں پھنستا محسوس ہواوہی کالے سیاہ آکسیجن سے بھرے بادل جیسے میری روح کوجکڑنے لگے ،شدید گھٹن نے میری سانسیں روک دیں، میں وہاں سے اکھڑی سانسوں سے بھاگی اور بھاگتی چلی گئی اماں کے کمرے میں پہنچ کران کے تکیئے کوسینےمیں بھینچ لیا پھرجیسےمیرےاندرکی ساری گھٹن میری آنکھوں سے پھوٹ نکلی