کچن کے کاموں سے فارغ ہو کر میں لائونج میں آئی تو بیٹا ویڈیو گیم میں اور میرے “وہ” موبائل پر واٹس اپ میں مگن ۔ میں نے بھی موبائل اٹھا لیا اور عالمی گا ئوں کے کتاب چہرے کو چھوتے ہی سارے رنگ اپنی بہار لے کر سامنے آ گئے ۔ جہاں جاندار تو وہی دو طرح کے تھے مگر ان کی خصلتیں عجیب عجیب تھیں ۔ ایک سفید پوش تو دوسرا ست رنگی ۔
ابھی میں گومتی کنارے سوکھی ریت پر ہی ٹہل رہی تھی ، ریت گرم ہو کر میرے پیروں میں جلن ا ور چبھن پیدا کر رہی تھی۔۔ تب ہی ہلکی سی بب نے مجھے چونکا یا ۔مقدس شہر کے کھجوروں کے درخت کی اوٹ سے تہذیب کی جانب بھیجا ہوا دوستی کا پیغام تھا میں نے لبیک کہہ کر اسلم شاہ کی دوستی کو اعتبار بخش دیا ۔ اس کی باتوں میں ایک فسوں سا تھا ’’
“میری پیاری دوست زندگی کے سفر میں بہت سے لوگوں سے ملنے کا شرف حاصل ہوتا ہے کچھ لوگ رابطہ رکھتے ہیں تو کچھ رابطہ اور واسطہ دونوں ۔ تمہارے ساتھ میرا صرف اور صرف روحانی قربت کا رابطہ اور واسطہ ہے کیا تم بھی ایسا ہی محسوس کرتی ہو ؟
‘‘ ’’ میرے نزدیک دو ستی خدائی تحفہ ہے جسے مزاجوں کی ہم آ ہنگی پروان چڑھاتی ہے ‘
‘ ’’ میں اس روحانی تقدس کو کبھی پامال نہ ہونے دونگا انشاء اللہ یہ دوستی قائم رہیگی
مگر اس کا فسوں تا دیر قائم نہ رہ سکا
۔ ’’ اے میری پیاری دوست آج روح نے شدت سے پاکیزہ پیکر کو مجسم دیکھنے کی آرزو کی ہے کیا تم اس کی اس ادنٰی سی خواہش کو پورا نہ کروگی ؟
چہرے کا نقاب ہلکا سا سرکا تھا
’’ روح تو وجود سے عاری پھر یہ خواہش بے جا کیوں ؟
دلیل آئی ’’ روح ابھی جسم کی قید میں ہے اس لیے تمنا ایک فطری عمل۔ میری دوست تمہاری امانت صرف اس صندوق ( انباکس )میں محفوظ رہے گی۔’’ ‘‘
میری تصویر فوٹو شاپ کے زریعے مختلف زاویوں میں ابھر آئی
’ شکریہ میری دوست تمہارے دلفریب حسن کی بدولت بہار میرے اطراف میں رقصاں ہے
ردا کچھ اور سرک گئی تھی ۔ کچھ دن میں نے صندوق کو بند رکھا مگر دستکیں مسلسل تھیں ۔ پھر چہرے کے کچھ اور خد و خال بھی نمایاں ہونے لگے ۔ ’’
آپ کی تحریروں میں جو کرب ہے وہ یقیناً آپ کی ذات کا ہے ۔ ‘
‘ ’’ درد ہی تو تخلیق کا باعث ہوتا ۔ ذات کی تشنگی ہی فن میں نکھا ر لاتی ‘‘ ’’ ’’
اگر میں اس درد کی مسیحائی کرنا چاہوں تو ؟ ‘‘نقاب پھر
’ تھوڑا ہٹا۔
’’ شکریہ میرا درد درد لادوا ہے جو کہ میرا قیمتی اثاثہ
ایک دن اس کا ست رنگی چولا بھی نظر آیا،۔ اور پھر یکلخت ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور اس کی نقاب کو اڑا لے گیا اس کا مکروہ چہرہ اپنی تمام تر غلاظتوں کے ساتھ میرے سامنے تھا ۔ ۔ میں نے اس گھناؤنے باب کے تمام اوراق کے پرزے پرزے کر ڈالےاور اس باب پر قفل ڈال آئی تب ہی مجھے گومتی کی ریت میں نمی کا احساس ہوا میرے شوہر میرے سامنے کھڑے مسکرا رہے تھے.
“میری پیاری دوست زندگی کے سفر میں بہت سے لوگوں سے ملنے کا شرف حاصل ہوتا ہے کچھ لوگ رابطہ رکھتے ہیں تو کچھ رابطہ اور واسطہ دونوں ۔ تمہارے ساتھ میرا صرف اور صرف روحانی قربت کا رابطہ اور واسطہ ہے کیا تم بھی ایسا ہی محسوس کرتی ہو ؟
‘‘ ’’ میرے نزدیک دو ستی خدائی تحفہ ہے جسے مزاجوں کی ہم آ ہنگی پروان چڑھاتی ہے ‘
‘ ’’ میں اس روحانی تقدس کو کبھی پامال نہ ہونے دونگا انشاء اللہ یہ دوستی قائم رہیگی
مگر اس کا فسوں تا دیر قائم نہ رہ سکا
۔ ’’ اے میری پیاری دوست آج روح نے شدت سے پاکیزہ پیکر کو مجسم دیکھنے کی آرزو کی ہے کیا تم اس کی اس ادنٰی سی خواہش کو پورا نہ کروگی ؟
چہرے کا نقاب ہلکا سا سرکا تھا
’’ روح تو وجود سے عاری پھر یہ خواہش بے جا کیوں ؟
دلیل آئی ’’ روح ابھی جسم کی قید میں ہے اس لیے تمنا ایک فطری عمل۔ میری دوست تمہاری امانت صرف اس صندوق ( انباکس )میں محفوظ رہے گی۔’’ ‘‘
میری تصویر فوٹو شاپ کے زریعے مختلف زاویوں میں ابھر آئی
’ شکریہ میری دوست تمہارے دلفریب حسن کی بدولت بہار میرے اطراف میں رقصاں ہے
ردا کچھ اور سرک گئی تھی ۔ کچھ دن میں نے صندوق کو بند رکھا مگر دستکیں مسلسل تھیں ۔ پھر چہرے کے کچھ اور خد و خال بھی نمایاں ہونے لگے ۔ ’’
آپ کی تحریروں میں جو کرب ہے وہ یقیناً آپ کی ذات کا ہے ۔ ‘
‘ ’’ درد ہی تو تخلیق کا باعث ہوتا ۔ ذات کی تشنگی ہی فن میں نکھا ر لاتی ‘‘ ’’ ’’
اگر میں اس درد کی مسیحائی کرنا چاہوں تو ؟ ‘‘نقاب پھر
’ تھوڑا ہٹا۔
’’ شکریہ میرا درد درد لادوا ہے جو کہ میرا قیمتی اثاثہ
ایک دن اس کا ست رنگی چولا بھی نظر آیا،۔ اور پھر یکلخت ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور اس کی نقاب کو اڑا لے گیا اس کا مکروہ چہرہ اپنی تمام تر غلاظتوں کے ساتھ میرے سامنے تھا ۔ ۔ میں نے اس گھناؤنے باب کے تمام اوراق کے پرزے پرزے کر ڈالےاور اس باب پر قفل ڈال آئی تب ہی مجھے گومتی کی ریت میں نمی کا احساس ہوا میرے شوہر میرے سامنے کھڑے مسکرا رہے تھے.