تم میری اتنی سی بات بھی نہیں مان سکتے.
اُس نے آج پھر وہی بات کی تھی ۔
اس کے ساتھ رات کا کھانا اور واک کرتے کرتے بہت دیر ہو گئی ۔
“اوہ تم کتنے اچھے ہو میری ہر بات مان لیتے ہو ۔”
اس کے الوداعی جملے کے ساتھ ہی جانے کیوں اس کا دل ڈوبنے لگا تھا ۔
شاباش! یہ وقت ہے آنے کا ۔
والدین کی تو فکر ہی نہیں ۔ گھر بار کیا ہوتا ہے کبھی سوچو گے تم لوگ ؟
ہاں نئے جوتے لائے ہو میرے ؟
اس نے باپ کی طرف دیکھے بغیر شاپر سے نئے جوتے نکال کر باپ کو تھما دیے۔
میرا پیارا بیٹا ۔ جلدی گھر آجایا کر ۔
ٖایک تلخ مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل گئی ۔
یہ سب معمول تھا اور وہ اس معمول سے اکتا چکا تھا
ہر تصور اپنے معانی سے بغاوت کرتا رہا تھا۔ اور اب بیگانگی کی کیفیت اس پر مکمل طاری ہو چکی تھی۔
اور وہ ہر ربط ہر لگاؤ سے بے نیاز ہو چکا تھا ۔
رات خواب میں اس نےایک بار پھر گوتم کو دیکھا ۔ جس کی آنکھوں میں بلاوہ تھا
اسی جنگل میں جہاں درندوں کی ہڈیاں تک کھو چکی تھیں ۔
جاگنے کے بعد اسے معلوم نہیں تھا کہ اب نیند فراموشی نہیں رہے گی۔
ایک عام انسان کی طرح وہ سامنے دیکھ کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔
دوسری شام وہ اسی جنگل میں گزارنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔
اس نے جنگل میں پہنچ کر ایک درخت سے ٹیک لگائی،
وہ نیند نہیں تھی ۔وہ گزرتی شام کو محسوس کر رہا تھا ، رات اور پھر صبح ۔
تین چکر مکمل ہونے کے بعد نیند نے سرگوشی کی ۔بے وفائی اور وفا ۔ ربط اور ناآشنائی ، یوں ہی ایک دوسرے کے ساتھی ہیں ۔ ایک اپنے سفر میں تھک کر یہ سبھی مناظر و حیات دوسرے کے سپرد کر جاتا ہے ، ملکیت کے احساس سے بے نیاز ۔ کچھ بھی کسی کی ملکیت نہیں ہے ۔ وقت ، مناظر ، فکر ، الفاظ ، خیال ، بیان، اظہار ، بجز اس کے جو انہیں تخلیق کرے ، ترتیب دے اور پھر ان سے بے نیاز ہو جائے ۔
یاد رکھو جو جتنا بولتا ہے ، اپنی دانائی اور تخلیق کم کرتا جاتا ہے ۔
غور کرو یہ شجر بہت دانا ہیں ، مناظر یہ سرکتا ہوا وقت۔ ان کے سامنے اپنا ماضی اور تما م سوال ترتیب سے رکھتے جاؤ اور اپنے ذہن کو خود سے آزاد کرو ، اور سب اس کو سونپ کر گم ہو جاؤ ، ویسے ہی جیسے دن شام کو سونپ کر گم ہو جاتا ہے ۔
اس نے جانا ، ہر جذبے نے ایک دوسرے کو باہمی احساس سے جنم دیا ، اصل آنکھیں بے نیاز فکر کی آنکھیں ہیں اصل اور خالص آواز وہ خاموشی ہے جو ارتعاش کو جنم دیتی ہے ۔
وقت سرکتے سرکتے معلوم کے نقش چھوڑتا رہتا ، اور ہر نقش ہیئتیں بدلتے ہوئے کچھ نیا سمجھاتا اور سکھاتا۔ وہ مسلسل جان رہا تھا اور جاننے کے اس عمل میں وہ اتنا بدل چکا تھا ۔ کہ اس نے خود کو جنگل کے وقت، اشجار میں ضم کر دیا ۔ اور ایک صبح جب اس کے ماضی سے کچھ لوگ وہ جنگل کاٹنے آئے تو ۔۔۔