دن بھر کی تھکی ہاری جب وہ گھر آئی تو اپنے کمرے کی حالت دیکھ کر اسے ایک لمحے کو غصہ آیا ،مگر وہ مسکرائے بنا بھی نہ رہ سکی ،،یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ بچوں کو جن پرانی چیزوں یا کپڑوں کی ضرورت نہ ہوتی وہ اس کے کمرے میں رکھ جاتے کہ ماں چیرٹی میں دے دے۔
اس نے کپڑے تہہ کرکے چیرٹی بیگ میں رکھنے شروع کر دئیے کہ اچانک اس کی نظر ہینگر میں اٹکے اس کے اپنے سوٹ پہ پڑی جسے شاید اس کی بیٹی نے پہننے کے لیے نکال لیا ہو اسے دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں وہ منظر گھوم گیا جب کئی گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد اسے ایک سوٹ پسند آیا تھا، جس کو اُٹھا کر وہ کاؤنٹر کی طرف بڑھنا ہی چاہ رہی تھی کہ ایک ایس ایم ایس نے اس کے قدم روک لیے ،مختصر سا میسج تھا “یہ نہیں گرین لو۔ ” اُس نے گھوم کر دیکھا۔ ارد گرد اُسے ” وہ ” نظر نہ آیا ۔ حیرت و انبساط کی ملی جلی کیفیت میں بلا سوچے اُس نے سبز سوٹ لیا اور کاونٹر پہ بل ادا کرکے دکان سے باہر نکل آئی۔ وہ سامنے ایک پول سے ٹیک لگائے کھڑا تھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی وہ اپنائیت بھرے لہجے میں بولا “سبز رنگ تمہارے لیے ہی بناھے ۔”وہ مسکراتے ہوئے اُس کے آگے سے گزر گئی۔اُس کی مسکراہٹ میں ایک خاموش مکالمہ تھا ” اگر تم کہتے ہو تو سچ ہی ہوگا ۔”
ماں سوری ہم نے آپ کے کمرے کا حلیہ بگاڑ دیا ھے ۔” بیٹی کی آواز نے دوبارہ اسے اپنے کمرے میں لا کھڑا کیا۔ اس نے سوٹ ہینگر سے نکال کے تہہ کیا۔ نہ جانے کیا سوچ کر وہ لمحہ بھرکو رکی ، ایک نگاہ اپنے فون پہ ڈال کر زیر لب بڑبڑائی ۔” سبز رنگ جانے کس کس کے لیے بنا ھے ۔”اور سوٹ چیرٹی بیگ میں ٹھونسنے لگی ۔