ارے آآآپ !
آج تو صبح نور کے وقت بہت اچھے دِکھ رہے ہیں۔
“ہاں لیکن آپ ۔۔!
“وہ بھی بتاتا ہوں ، آپ قرطاس حیات ہیں نا “؟
” ہاں مگر !
جی میں بھی یہی کہہ رہا ہوں مگر حالت میں ایسی تبدیلی ۔ منہ پہ سوزش تھی ، چہرہ وحشت زدہ تھا ، ایک آنکھ میں اندھیرا دوسری میں بے حساب مناظر قید تھے گلستان و ریگستان ، غم و خوشی ، سنجیدگی و شوخی ، دلکشی و بیزاری کے سب ایک ساتھ تھے ۔ رخ پہ سُرخ و سفید نشانات ، سرخ نسبتا” زیادہ تھے ۔ ایک بازو غائب اور دوسرا بھی پوری طرح سلامت نہیں تھا ۔ زبان کٹی ہوئی تھی
بدن میں جگہ جگہ سوراخ تھے جن میں کچھ سے پیپ اور کچھ سے لہو رس رہا تھا دیمک کے جیسے کیڑے بھی جڑ رہے تھے ۔ بائیں طرف کے ایک حصے سے مہک اُٹھ رہی تھی مگر بہت کم ، شاید وہ اندورنی جزو تھا ۔ ٹانگیں خستہ حال ستونوں کی طرح بڑی مشکل سے جسم کو سنبھالے ہوئے تھیں ۔ پیروں کے نیچے بے شمار آبلے جیسے انگاروں پے سفر رہا ہو اور پاؤں کےاوپر کی حالت ٹخنوں تک یوں تھی کہ گندے نالے میں ڈوبے رہے ہوں ۔
لیکن آج صبح نور کے وقت تو ایک دم دلکش و دلنشیں ، پوری حالت و تاب کے ساتھ ۔ !
ہاں میں قرطاس حیات ہوں لیکن مجھے کب دیکھا تھا ؟
“ارے بھئی کل دیکھا تھا ”
ہاں وہ کل تھا یہ میں آج ہوں ، دیکھو کل تک کیسا بنایا جاتا ہوں
لیکن افسوس آپ نے میرا صرف ایک طرفہ پہلو دیکھا ۔ دوسری جانب گلستان میں اُڑتی تتلیاں کیوں نہیں دیکھیں ، گُل پہ برستی شوخ بوندیں نہیں دیکھیں ۔ بھنور اور لہروں کا سنگم نہیں دیکھا ۔ گھاس پہ ہوتے ہوئے بھی شبنم کا چمکنا نہیں دیکھا ۔
ایک اجنبی کا دوسرے اجنبی پہ اعتماد ہونے سے پُر سکون چہرہ نہیں دیکھا ۔ ماں کے دل سے امڈتا پاکیزہ سفید پیار نہیں دیکھا ، پرندوں کا اپنے خالق پہ یقین نہیں دیکھا ۔
میں جیسا ابھی ہوں ویسا ہی ہوتا ہوں ۔ مجھ پہ نقوش اُبھارے جاتے ہیں ۔
لیکن آپ ۔۔۔انسان ہیں نا؟!