صاحب ! ابھی میں نے اسے بائیں جانب جاتے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔!کیا آپ نے بھی دیکھا؟
نھیں جناب ! وہ ابھی دائیں جانب گیا ھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
کیسی بات کرتے ھیں آپ حق گوئی سے کام لیجیئے ابھی وہ بائیں جانب گیا ھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!
ارے ادھر ہٹیئے۔۔ادھر۔۔ ۔ ۔ جی، اب میری نطر سے دیکھیئے!!بولیئے دائیں تھا یا بائیں۔ ۔ ۔ ۔ ؟!!!!!!
آپ اپنی ہی بات پر مصر ھیں ! آپ میری جگہ سے دیکھیئے زیادہ صاف دکھائی دے گا کہ وہ رند بائیں گیا یا دائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!
وہ اسی طرح لڑتے جھگڑتے اور بحث کرتے رھے۔ ۔ ۔ رند پلٹا تو ابھی وہ وھیں تھے۔، رند کو دیکھ کر بولے، اے رند کہاں گیا تھادائیں یا بائیں؟؟
ارے تم کیوں لڑتے ھو ، میں تو سیدھا گیا تھا حج سے پلٹا ہوں اور تم ابھی یہیں ہو اور یہ تمہاری داڑھیوں کو کیا ھوا؟؟دونوں نے پہلی بار ایک دوسرے کو بغور دیکھا اور ھسنے لگے۔ ۔ ۔ ۔
ایک بولا: حقیقت وہ ھے جو ’’میں‘‘ دیکھ رہا ھوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہنستے ہنستے دوسرے نے کہا: بندر کیا جانے ادرک کا سواد حقیقت وہ ھے جو ’’میں‘‘ دیکھ رہا ھوں۔ ۔ ۔ ۔
یہ سن کر رند مسکرایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔وہ آستینیں چڑھا کر بولے، اے!!تو کیوں ھنسا؟
رند نے کہا : حقیقت ’’وہی‘‘ ھے جو میں دیکھ رہا ھوں۔ ۔ ۔ ۔ !!
تو کیا دیکھ رہا ھےاحمق ؟؟!!
تمہاری داڑھی میں تنکے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!!
وہ دونوں رند کی جانب دوڑے ایک نے کہا دائیں اور دوسرے نے کہا بائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔