گزرے زمانے کی بات ہے ۔۔۔ شہر کے بیچوں بیچ، کنکریٹ کے جنگل میں ایک چوراہا رہا کرتا تھا۔ اُس کے چار بیٹے تھے۔ چاروں فرمانبردار اور وقت کے پابند۔ دن رات ایک کرکے مشین کی طرح کام کرتے۔ چھوٹی ہو کہ بڑی، ہر گزرنے والی سواری اُن کی اِطاعت گزار تھی۔ لیکن چاروں کی آپس میں بنتی نہ تھی، سب ایک دوسرے سے منہ پھیرے کھڑے رہتے۔ اُن میں سے جب کوئی راہ دیتا تو دُوسرا۔۔۔دیدے نکال کر راہ میں حائل ہوتا۔ مگر چوراہا اِس بات پربے حد خوش تھا۔وقت کٹتا رہا ، دن گزرتے رہے ،مگر ۔۔۔ بیٹوں کے بیچ فاصلے کم ہُوے نہ دُوریاں بڑھیں ۔رنگ بدلے نہ ڈھنگ ۔
چاروں کے ساتھ کنکریٹ کے جنگل میں رہتے رہتے، زمانے کے سرد و گرم سہتے سہتے،چوراہے کے چہرے پر جگہ جگہ گڈھے پڑ گئے تھے۔ بدلتے وقت کے ساتھ، شہر کی بدلتی حالت دیکھ کراُسے فکر ہونے لگی کہ ٹریفک کا ہجوم دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس کے دیگر بھائیوں کی طرح اُسے بھی راستے سے ہٹا کر کوئی پُل نہ بنا دیا جائے۔ اُس کے یہاں سے اُٹھتے ہی اُس کے چراغوں میں سے کچھ چراغ بھی گُل ہوسکتے ہیں۔
ایک رات جب راستے سنسان تھے، اِکّا دُکا گاڑیاں فراٹے بھر کر گزرہی تھیں ۔۔۔ جنہیں اِس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ چاروں بیٹے لال پیلے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں چوراہے نے چاروں ’خشک خصالوں ‘کو مخاطب کر تے ہوئے کہا ’’ میرے بچو! کبھی متحد نہ ہونا۔۔۔۔۔۔ تمہارے اختلاف میں طاقت ہے۔۔۔۔۔۔ کبھی متحد نہ ہونا۔‘‘