آگ—- آگ —– شعلہ ، یہ کیا ہو گیا ؟
دیکھتے دیکھتے سارا مکان لہک اٹھا – دھواں ، شعلہ اور گرمی ، اس پر روتے
بلکھتے بچے ، بوڑھے اور سینہ پیٹتی ہویی عورتیں – ایک خلفشار سا مچ گیا
تھا – شور اور ہنگامے نے پاس پڑوس کی ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا –
ہوا تیز ہوتی جا رہی تھی –
پھر ہوتا یوں ہے کہ اچانک آگ بجھنے لگی اور دھواں سا پھیلنے لگا – لوگ
دھویں سے تنگ آ کر کنارے ہٹنے لگے – جلتا ہوا مکان اب دھویں کا مسکن بن
گیا تھا – پھر آگ سرد ہو گیی – دھواں بھی زایل ہو گیا – یہاں تک کہ آگ
اور دھواں ایک افسانہ بن کر رہ گیا – مگر مالک مکان کو ایک الگ پریشانی
لاحق ہو گیی تھے کہ اس کے جسم پر ایک چنگاری آ کر اپنا کام کر گیی تھی
اور اس کا سارا جسم اس طرح لہک رہا تھا ، جیسے ساری آگ اس کے جسم میں
بھر دی گیی ہو – کبھی کبھی فطرت کا مذاق بھی عجیب ہوتا ہے – آتش بازی
بنانے والا وہ شخص آج خود آتش بازی کی طرح اندر ہی اندر سلگ رہا تھا –
آگ کیوں لگتی ہے ؟
آگ لگتی ہے یا لگایی جاتی ہے ؟؟
آگ تو تہذیب کی نشانی ہے ، اور تہذیب ہمیشہ حسن کی قایل ہوتی ہے – مگر یہ آگ تو سب کچھ کالا کر رہی تھی اور جو کالا نہ ہوتا تھا اس کا بھسم بنا دے رہی تھی –
میں دور سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا کہ اچانک میرے ذہن و دماغ میں آگ کے شعلے اٹھنے لگے اور نگاہوں کے سامنے چنگاریوں کا ایک ہجوم سا لگ گیا –
میں چلانے لگا ——- آگ لگ گئی ہے – بجھاؤ بجھاؤ – مگر کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا – میں جلتا رہا اور میرا درون خاکستر ہوتا رہا – میرا ایک دوست جو مجھ سے بہت قریب تھا ، میرا گھبرایا ہوا چہرہ دیکھ کر مجھ سے لپٹ گیا – مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ بھی نہیں جلنے لگے – مگر میرے منع کرنے کے باوجود وہ مجھ سے لپٹا رہا اور میں اسے ٹالتا رہا – مگر ہوا یہ کہ آگ کی ایک چنگاری اسے بھی لگ گئی اور پھر ہم دونوں پانی کی تلاش میں دوڑنے لگے – ہم دونوں پاگلوں کی طرح ایک سمت دوڑے جا رہے تھے اور زمانہ ہمیں مجنوں سمجھ کر ہمارا تعاقب کر رہا تھا –
راستہ آگے بڑھتا رہا – ہم چلتے رہے – چلتے چلتے ہم ایک بستی میں آئے- یہ تالابوں کی بستی تھی – یہاں ہماری سوزش کم ہوتی – مگر جب قریب پہنچا تو محسوس ہوا کہ تالاب سراب بن گئے ہیں اور اس کا پانی ، پانی نہیں رہا ہے –
وہ بھی ریت کی طرح جل رہے تھے – اب ہمارے سامنے کوئی حل نہیں تھا – ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہماری جان نکل جائےگی اور ہم خاک کے تودا بن کر رہ جائیں گے
ہم دونوں نے پھر ہمت کر کے آگے کی طرف دوڑنا شروع کیا – یہاں تک کہ ہم
ایک پہاڑ پر پہنچے اور اوپر کی طرف چلنے لگے ابھی پوری طرح سے چوٹی پر پہنچے بھی نہیں تھے کہ محسوس ہوا ہماری چنگاری شعلہ بن رہی ہے اور اس نے پہاڑ کی ساری چوٹی کو منور کر رکھا ہے – بستی کے ارد گرد لوگ اس نور کو دیکھنے کی خاطر جمع ہوئے ہیں – اور ہم ہیں کہ اس آگ کے عادی بن گئے ہیں –
ہمارا بدن آگ کا بن چکا ہے – اب ہم دوسروں کو جلا سکتے ہیں – ہم روشنی
پیدا کر سکتے ہیں – مگر خود سوزش محسوس نہیں کر سکتے – اب ہم خود جلتے ہیں ، جلاتے ہیں کہ جلنا اور جلانا ہمارا مقدر بن چکا ہے