اب تک اس ایونٹ میں شامل تقریباً تمام کہانیوں، افسانچوں کو رزق بصارت بنایا اور تب ذہن میں جو سوالات ابھرے انہیں قارئین کے سامنے لانا ضروری خیال کیا. میں نے منی کہانی کے تعارف میں جو باتیں درج کی ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یا اسی کا اسے تسلسل کہہ سکتے ہیں. منی کہانی یا افسانچے کسے کہتے ہیں یہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں. منی کہانی کسی واقعے سے ابھرے خیالات کو تراشیدہ ہیرے کی طرح پیش کرنا ہے. جو مختصر ہوتے ہوئے بھی اپنے دامن میں زندگی کے تجربے سمیٹے ہوئے ہو. منی کہانی میں تشریح، منظر کشی کی کی قطعی گنجائش نہیں ہوتی، صرف واقعہ ہوتا ہے، وہ بھی صدائے بازگشت جیسا جو دیر تک ذہن میں گونجتا رہے. منی کہانی میں وقت اور زمانے کی جھلک کا ہونا ضروری ہے. یہ ناول کی طرح زندگی نامہ نہیں سناتا، یہ تو پل دو پل کی منظر کشی ہے. اس میں وہ کچھ ہو جو زندگی کا حصہ ہو، جس کی زندگی میں اہمیت محسوس کی جائے. جس طرح رباعی کے لیے آخری مصرع اہمیت کا حامل ہوتا ہے اسی طرح منی کہانی کا آخری جملہ اہمیت کا والا ہو. ایسا جملہ جو ذہن میں بھونچال پیدا کرنے کی کوشش کرے. اثر دکھانے کی سعی کرے. منی کہانی گاگر میں ساگر ہے. انگلی سے پربت اٹھانے جیسا ہے. ایک اچھی منی کہانی کی پہچان ہے کہ وہ موضوعاتی تنوع کااحساس دلائے. جس میں نئی تخلیقیت فنی اقدار کے پس منظر میں رونما ہو.ذہنی بیداری، اصلاح اور تعمیر کے اجتماعی میلانات کے واضح نشانات ہوں. جاندار اور مضبوط خیالات کے عکاسی ہو. منی کہانی کا مقصد کھوکھلے ضابطہ حیات، معاشرے میں پنپتے ناسور، سڑاند دیتے زخموں کو عیاں کرنا ہے. منی کہانی مسائل کی نشاندہی کا دوسرا نام ہے. مگر اس میں بھی قواعد و اصول کو مدنظر رکھنا چاہیے. اس ایونٹ میں زیادہ تر افسانے شامل کیے گئے ہیں. منی کہانی انتہائی کم شامل ہوئیں. دیکھا یہ گیا ہے کہ تاثراتی افسانے خواص تک محدود رہتے ہیں. ادب سے شغف رکھنے والے ہی تاثراتی افسانے پسند کرتے ہیں. لیکن کہانیت سے لدے پھندے واقعہ کو ہر کوئی پسند کرلیتا ہے. جیسا کہ اب رسالے تک محدود منی کہانی اخبارات میں ہر روز شامل ہونے لگی ہے. جنگ میں سو لفظوں کی کہانی کے نام سے مبشر علی زیدی لکھ رہے ہیں اور روزنامہ ایکسپریس میں آج کی کہانی کے عنوان سے اقبال خورشید.. منی کہانی کی مقبولیت میں اخبارات کا حصہ دیکھ کر لگ رہا ہے کہ جس طرح ہر روز ایک قطعہ ہوا کرتا ہے اسی طرح اب ہر اخبار میں ایک منی کہانی بھی ہوا کرے گی.