مختصر کہانی مختصر کہانی تقریب ۲۰۱۵

رشتوں کی تھکن

آج مینٹل ہوسپٹل سے نکلتے وقت کچھ دیر کو کمرہ نمبر بیس کی نئی مریضہ” صبا ” کو دیکھنے کے لئے رک گئی ۔۔ آج بھی دکھ سے اس کا خوبصورت سانولا چہرہ اداس ۔۔۔ آنسوبہاتی آنکھیں بہت بے چین تھیں ۔اس کوخاموش پا کر میں واپس آنا ہی چاہتی تھی کہ وہ میرے ہاتھوں کو تھام کر رو پڑی ۔۔۔ اور میں وہیں رک گئی ۔۔
وہ دھیرے دھیرے بتا رہی تھی کہ اس کے ابو جی چار برس پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے اوروہ چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی ۔۔ جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا اپنی ماں کو بیمار ہی دیکھا تھا ۔ انہوں نے کبھی اس کے بیٹیوں والے لاڈ نہیں اٹھائے تھےاور نہ ہی اس کی کوئی خوشی منائی تھی ۔۔۔
وہ کہہ رہی تھی ” اکیس برس سے میں اپنی ماں کی زندہ لاش کے ساتھ ہوں ۔ ایسے جیسے ماں صرف میری زمہ داری ہے ۔۔ میں اپنی ماں کو اب بوجھ سمجھنے لگی ہوں ۔ ۔۔۔ میرا ان سے تعلق محبت کا نہیں “ ترس“ کا رہ گیا ہے ۔۔ ۔ میں اب اور ترس نہیں کھا سکتی ۔۔“
صبا کی روشن آنکھوں میں اس کی تھکن اور اداسی کسی مجرم کی طرح اپنے ہونے کا اقرار کر رہی تھی ۔۔ .
کیا اپنے بہن بھائیوں سے یہ کہنا غلط ہے کہ مجھ سے اب ماں کی اور دیکھ بھال نہیں ہوتی ۔۔۔ ؟
کیا اپنی تھکن بانٹنا ۔۔اپنے بوجھ بانٹنا غلط ہے ۔۔؟
ماں آہستہ آہستہ مر رہی ہیں ۔۔ اور میں تیزی سے مر رہی ہوں ۔۔ میں چار سال کی تھی جب سے اپنی ماں کو کبھی پانی کا گلاس تو کبھی انہیں دوا پکڑا رہی ہوں ۔۔ میرے پاس اپنی ماں کو یاد رکھنے کے لئے ایک بھی خوشگوار یاد نہیں ہے ۔۔۔
پتہ کیوں ؟ ..
اس لئے کہ میرے بہن بھائیوں نے مجھ سے کبھی میری تھکن بانٹی ہی نہیں ۔۔۔۔
مجھے کبھی سوچنے ہی نہیں دیا کہ میں بیٹی کے علاوہ بھی کچھ اور ہوں ۔۔ مجھے یاد ہے تو بس اتنا ۔۔۔ ..
صباماں کا خیال رکھا کرو۔۔۔ آج چھٹی کر لو ماں کی طبعیت ٹھیک نہیں
صبا کوشادی کی کیا ضرورت ۔۔۔ رہےماں کے پاس
صبا آج ماں کو ڈاکٹرکے پاس لے جانا۔۔ ضروری اپوائنمنٹ ہے
صبا کھانا کھا لینا ۔۔ ہم باہر ہی کھا کر آئیں گے
صبا ماں کے پاس ہی سویا کرو کہیں انہیں رات کو کوئی ضرورت نہ پڑ جائے
میں خیال رکھتے رکھتے تھک گئی ہوں ۔۔۔
اس لئے میں نے کل بہن بھائیوں کو گھر بلایا اور ان سب سے کہا کہ میرے ساتھ دعا میں شریک ہوں ۔۔ پھر میں نے دعا کی ۔۔
بس اتنی سی بات پر یہ سب مجھے مینٹل ہوسپٹل لے آئے ہیں ۔۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ ” رشتے تھکن کی طرح اس وقت بوجھ بن جاتے ہیں جب وہ بانٹے نہیں جاتے ” ۔۔
تم نےکیا دعا مانگی تھی صبا ۔۔۔ میں نے آہستگی سے پوچھا
صبا کی آواز جیسے ڈوب رہی تھی ۔۔ “اے اللہ میں زندہ رہنا چاہتی ہوں اس لئے میری ماں کو اس جہاں سے اٹھا لے ”
اب کمرہ نمبر بیس میں صبا کی خاموشی کے ساتھ میری خاموشی بھی شامل ہوچکی تھی ۔۔۔

Leave a Comment