تقریباََ روز ہی اس کا گذروہاں سے ہوتا تھا ۔ ہر بار چوراہے پر کھڑی خوبصورت اور پُرکشش عمارت کی اُوپری منزل سے دو آنکھیں اسے اپنے وجود کا چوری چھپے نظارہ کرتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔۔ اور اب یہ کوٹھی اس کی زندگی کی اہم جزو بن گئی تھی ، ہر لمحہ کوٹھی کی اُوپری منزل پر واقع کھڑکی کے پیچھے جھکی اِن آنکھوں کے بارے میں سوچنا اور وہاں پہنچنے کے لئے سیڑھی کی تلاش ہی اب اس کی زندگی کا معمول بن چکا تھا ۔۔۔۔۔
آج بھی حسبِ معمول جب وہ چوراہا پار کر رہا تھا، تو اُس نے دیکھا اُوپری منزل کی کھڑکی سے دو آنکھیں برابر اس کاتعاقب کر رہی ہیں ،ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں اُس نے زندگی کا اہم فیصلہ کر لیا اور اُس کے قدم خودبخود حویلی کے صدر دروازے کی طرف بڑھنے لگے ۔۔
کال بیل کے بٹن پر اُنگلی پڑتے ہی اچانک کھڑکی کے پٹ کھلے۔ نظروں کا تصادم ہوا ۔۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگے۔ تھوڑی ہی دیر میں دروازہ کھل گیا ۔ نگاہوں نے حقیقت بیاں کی ۔۔ ذہن نے تصدیق چاہی ۔۔ دلوں نے گواہی دی ۔ اور تکلفات کی ساری دیواریں منہدم ہوگئیں ۔۔۔۔۔ پھر عہد و پیمان ۔۔۔ جینے اور مرنے کی قسمیں۔جھیل ایسی گہری آنکھوں میں ڈوب جانے کی رومان انگیز باتیں ۔۔
ذرا فرصت ملی، تو اُس میں برسوں سے بند پڑے ہوئے کمرے کودیکھنے کی فطری خواہش پیدا ہوگئی ۔۔ جو مکین کے انکار سے پروان چڑھتی رہی اورضد بن کر اُس کے ذہن میں تلاطم بپا کرتی رہی ۔۔۔۔۔ کوٹھی کی مکیں اُن آنکھوں نے اُسے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔ بُجھی ہوئی راکھ میں ہاتھ جلنے کا خوف دلایا ۔۔۔ لیکن وہ اپنی ضد پر اَڑاَرہا ۔۔۔۔۔ ٹوٹے دل اور احساسِ خوف کے ساتھ آنکھوں نے چابیوں کے گچھے میں کمرے کی چابی تلاش کی ۔۔۔۔ دروازہ کھلا تو سامنے ہی ماضی کا عریاں وجود اپنی داستان سنا رہا تھا ۔۔ کمرہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکا تھا ۔۔ قد آدم آئینہ ٹوٹ کرچکناچور ہوچکا تھا اور اب اس جگہ دیوار پر ایک گہرا بدنما زخم نمایاں تھا ۔۔کمرے کے باقی حصے کی حالت بھی اس سے کچھ کم نہ تھی ۔۔ جگہ جگہ سے پلاسٹر اُکھڑ چکا تھا اور بڑی بڑی خراشیں گہرے زخموں کا احساس دلا رہی تھیں ۔۔۔
خوف اور نفرت کے ملے جُلے احساس میں مکین اُن آنکھوں نے سر جھکایا ۔۔۔۔ اور چند لمحوں کے بعد جب اس نے بے دلی سے اُوپر دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسوں تیر رہے تھے ۔۔
لاشعور کے نرم اور گدُ گُدے بستر سے آنکھیں ملتی ہوئی جب وہ باہر آئی تو اس نے دیکھا ۔۔۔۔ کمرہ بالکل خالی تھا ۔۔۔ اور باہر سڑک پر محبت بھری نگاہیں کوٹھی کا جائزہ لے رہی تھیں ۔۔ اس سے پہلے کہ کال بیل کی گھنٹی کا شور اس کے ذہن ودل میں ہلچل مچا دیتا۔۔۔ ،وہ اُٹھی ۔۔۔۔۔۔ اور ایک جھٹکے کے ساتھ کا ل بیل کی تاروں کو الگ کر دیا ۔۔