حضور آئے سر آفرینش پاگئی دنیا
اندھیروں سے نکل کرروشنی میں آگئی دنیا
بجھے چہروں کازنگ اتراسُتے چہروں پہ نور آیا
حضور آئے توانسانوں کو جینے کا شعور آیا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ احسان وشکر ھے کہ اس نے ھمیں انسان بناکر رحمت عالم صَلَّى اللهُ عَلَيْــــــــــــهِ وَســــــــــــَلَّمَ کا امتی بنایا اور دین”اسلام” جیسے دائمی وابدی دین کی نعمت سے سرفراز فرمایا جتنا اظہار تشکر بجالائے لایا جائے کم ھے،
قارئین کرام!! اس عالم انسانیت پر مختلف ادوار آئے قسم قسم کےناگفتہ بہ حالات سے انسانیت کو سابقہ پڑا،
ایک ایسا وقت بھی آیا جب انسانیت اپنا وقار کھوچکی تھی، عقولِ نفوس سوچنے کی صلاحیت، تدبر وتفکر کی قوت سے بیزار ھوچکی تھی، باھمی نفرت وعداوت، بغض، کینہ، حسد، غیبت، چغل خوری جیسی جرائم وذمائم نے انسانیت کو اعلی مقام سے ارذل مقام میں لاکھڑاکیا،
ظلم واستبداد، ناانصافی، چوری، زناخوری، فحاشی وعریانیت،ّجوابازی، شراب نوشی، غیر منصف بیداد حکومتوں کا تسلط، دین سے بیزاری، اخلاق وکردار سے لاتعلقی جیسی مذموم’خبائث’ انسانیت کا شیوہ بن چکی تھی،
تودوسری طرف خود غرضی، رب ناشناسی، عورت ذات کو گھٹیا سمجھنا، اخلاق کا بگاڑ، دوسروں کے حقوق میں کوتاہی، اپنے حقوق کے حصول پہ اصرار، بداخلاقیاں و بدکرداریاں انسانیت کی عادات سیئہ بن چکی تھی، ماحول کی خرابی، سماج ومعاشرہ کی تخریب کاری، اخلاقی قدروں کی گراوٹ، تعلیم کا انحطاط، ادب وشاعری کی معدومیت، وہ تمام علمی ادبی اثاثہ جو قدیم تہذیبوں کے لاتعداد انسانوں کے اذہان کا نچوڑ تھا اسکا فقدان، انسانیت اپنی حیات سے بیزار بلکہ “موت” کے لئے کمربستہ تھی، انسانیت تعمیری فکر کے بجائے تخریبی ذہنیت کا شکار ھوچکی تھی، انسان انہیں شاخوں کو کاٹنے پہ آمادہ تھاجن پہ اسکی زندگی کا انحصار تھا،
باہمی عداوت اپنے عروج پہ پہنچ چکی تھی جسکی کوئی ادیب نہ کوئی مؤرخ صحیح تصویر پیش کرسکتا تھا جسکی طرف میرے رب نے اشارہ کیا ھے،
اِذْ كُنْتُمْ اعْداءً فاَلّف بَيْنَ قلوبكُمْ فاَصْبَحْتُم بِنِعمَتِه اِخْواناً وَكُنْتُمْ عَلي شَفا حُفْرَةٍ من النَّار فَاَنْقَذَكُم منها
ان تمام مایوس کن حالات میں وہ کونسی انسانیت کی کشتی کی بے رحم موجیں تھیں جنکو نبوت کی اشد ضرورت تھی؟؟ وہی حالات جو اوپر بیان ھوئے؟؟
کیا جاہل اجڈ عربوں کےمعاشرے کے وه عادات رذیلہ ھیں جو معاشرے کا حصہ بن چکے تھے جن کی وجہ سے نبوت کی احتیاج شدت سے محسوس کی گئی؟؟ کیا ان تمام حالات کا شکار فقط عربوں کا معاشرہ تھا؟؟
نہیں بالکل نہیں!
بلکہ یہ ایک پرفریب مغالطہ تھا، حقیقت یہ ھے کہ جب پوری انسانیت اپنی موت آپ مرنے پہ آمادہ ھو جب انسانیت اور قوموں کا قوام بگڑجائے تو ایسے حالات تخلیق میں آتے ھیں ”الامان والحفیظ”
یہاں نبوت کی احتیاج شدت سے اسلئے محسوس کی گئی کہ انسانیت کا چول ہی ڈانواں ڈول ھو چکاتھا، انسانیت اپنے تخلیق کے مقصد اصلی کو فراموش کرچکی تھی، ایسے حالات میں رب کی حمیت کو جوش آیا انسانیت کو مقصد اصلی کی یاددہانی کرانے لئے رحمۃللعالمین صَلَّى اللهُ عَلَيْــــــــــــهِ وَســــــــــــَلَّمَ کی نبوت کا ایسا خورشید طلوع ھوا کہ جسکی ضیاء پاشی سے انسانیت کی عقل پہ پڑے بند قفل کھل گئے، سوچنے و سمجھنے کی صلاحیت، غوروفکر کی قوت لوٹ آئی،
انسانیت نے اپنا کھویا وقار حاصل کرلیا، یہ بعثت نبوی صَلَّى اللهُ عَلَيْــــــــــــهِ وَســــــــــــَلَّمَ امت کے لئے اتنا بڑا احسان عظیم ھے کہ تمام نعمتوں میں محض اِس نعمت کا رب نے مؤمنین پہ احسان جتلایا ھے کہ جسکی وجہ سے انسانیت جہنم کے غارعمیق میں گرنے سے محفوظ ھوگئی،
لَقَدْ مَنَّ الله علي الْمُؤْمِنِين اذ بَعَثَ فِيْهِمْ رسُوْلًا مِنْ اَنْفُسهِمْ الآية
میرے محبوب کی آمد سے باطل قوتوں میں کھلبلی مچ گئی بلکہ اکثرجگہ باطل طاغوتی طاقتیں سر نگوں ھوگئیں، میرےمحبوب صَلَّى اللهُ عَلَيْــــــــــــهِ وَســــــــــــَلَّمَ نے انسانیت کو مقصد اصلی سے آگاہ کیا،
میرےمحبوب نے سب سے پہلے انقلاب آفریں انسانیت کی کشتی کو نجاح وفلاح سے ھمکنار کرنے والا “توحید” کا درس دیا جو آج سے پہلے اس جاہل معاشرے میں نہ کسی نے دیا اور نہ ہی کسی سے امید متوقع تھی،
اخلاقی قدروں کو بلندی بخشی، انسانیت کو رفعتوں تک پہنچایا، معاشرے کے تمام رذائل و نقائص کو ختم کرکے حسنات کی بادبہاراں چلائی، عورت کو بلند مقام عطاکیا، انسانیت کو زندگی گزارنے کے عمدہ اسالیب سے آگاہ کیا، رضاءِرب والی زندگی گزارنے کے بہترین طور طریقے سکھائے، مساوات کا درس دیا، خود اعتمادی، خودشناسی اور رب سے تعلق کو استوار کیا، عقائد کی کھوکھلی بنیادوں کو جڑ سے ختم کرکے بگڑے عقائد کی اصلاح فرمائی، بت پرستی واوہام پرستی کی جڑوں کو ملیامیٹ کرکے قلوب کا تزکیہ فرمایا،
تعبد اصنام کی ظلمت سے نکال کر بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ھونے کا گُر سکھایا، معاشرہ کو سیئات سے پاک کرکے اسلامی ومثالی معاشرہ کا شرف بخشا،
اُن بت پرستوں کی ایسی تربیت فرمائی کہ وہی اسلام کے “مبلغین و مجاہدین” کے نامسے دنیا میں متعارف ھوگئے، اُن اخلاق سے عاری نفوس کو صحبت کا ایسا فیض پہونچایا کہ “پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانہ سے” کی ایک زندہ جاوید مثال قائم ھوگئی،
میرے محبوب نے اس طرح اُس بداخلاق وبداطوار قوم کی اصلاح کرکے پوری انسانیت کو جینے کے ایسے طریقے سکھائے کہ حیات ہی میں وہ سابقین اولین ان طریقوں پہ عمل پیرا ھوکر “عشرۂ مبشرہ” کا اعزاز حاصل کرکے جنت کے حقدار بن گئے (رَضِيَ الّلهُ عَنْهْم)
میرے محبوب صَلَّى اللهُ عَلَيْــــــــــــهِ وَســــــــــــَلَّمَ نے اِس طرح سسکتی بلکتی دم توڑتی انسانیت کو کئی طور طریقے سکھائے، کئی منشور دئے، کئی راہیں دی، کئی موڑ دئے،،
آج جو کچھ دین اسلام کی باد بہاراں اور گل بوٹے نظر آرھے ھیں یہ اُن سابقین اوّلین کی جد وجہد اور صحبت نبوی صَلَّى اللهُ عَلَيْــــــــــــهِ وَســــــــــــَلَّمَ کا ثمرہ ھیں،
((صَلَّى اللهُ عَلَيْــــــــــــهِ وَســــــــــــَلَّمَ الف الف مرۃ))
کس نے ذروں کو اٹھایااور صحرا کردیا
کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کردیا
سات پردوں میں چھپا بیٹھا تھا وہ حسن کائنات
پھر کسی نے اسے عالم آشکارا کردیا