مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

عزیز حامد مدنی اور سائنٹیفک شعور مقالہ نگار:فہیم شناس کاظمی


بیسویں صدی ہنگامہ خیز اور حشر برپا کر دینے والے تغیرات و انقلابات کی صدی ہے جس میں برِصغیر کی جمود زدہ ،مضمحل اور مایوس زندگی اچانک تغیرّات کی زد میں آ گئی اور تیز رفتار دھارے کے بہاﺅ میں بہنے لگی۔اس صدی کی ابتدا ہی جنگِ عظیم سے ہوئی اور پھر دوسری جنگِ عظیم میں عالمِ انسانیت کی آنکھوں سے روشن اور پُر امید زندگی کے سارے خواب چھین کر ہیرو شیما اور ناگاساکی کی ایٹم بم سے جل جانے والی بستیوں کی ایٹمی راکھ بھردی، جس نے دنیا میں علم و دانش، حلم و تدبر ، اخلاق و انسانیت جیسے اوصافِ حمیدہ کو پیچھے دھکیل کر طاقت و بربریت کا اصول رائج کر دیا۔عالمی سطح پر اور انفرادی سطح پر انسان کو تنہائی، خوف اور ڈر جیسی آسیبی قوتوں نے اپنے نرغے میں لے لیا اور سارے عالم میں دہشت پھیل گئی، سب کو اپنی بقا کی فکر لاحق ہو گئی۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اس وقت کی عالمی سامراجی طاقت ”برطانیہ“ دولتِ انگلشیہ کی بساطِ اقتدار(جس سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا) لپٹنے لگی اور اس کی نوآبادیات میں شامل ملکوں میں آزادی کی تحریکیں اٹھنے لگیں اور ملک آزاد ہونے لگے۔اس صدی کی تمام تر خرابیاں اپنی جگہ مگر یہی صدی بے شمار انکشافات و ایجادات اور علوم ِ نو کے فروغ کی صدی ہے۔نئے علوم نے زندگی کے تمام شعبہ ہائے حیات کے ساتھ ساتھ اردو ادب کی بھی کایا پلٹ دی۔ ۷۵۸۱ءکی جنگ آزادی کے بعد برصغیر کی تمام اقوام خصوصاََ مسلمان عالمِ سکوت اور ذہنی پسپائی کے گہرے صدموں میں تھے۔ایسے میں انفرادی اور اجتماعی جذبات و احساسات اور خیالات بھی جمود زدہ تھے۔ زندگی کی رگوں میں لہو کے بجائے ، حرارت کے بجائے، برف جمی ہوئی تھیایسے میں اختراعی خیالات کہاں سے آتے۔مجنوں گورکھ پوری فرماتے ہیں:۔
” ہمارے خیالات زندگی کی صورت بدلنے میں مدد بھی دیتے رہتے ہیں لیکن وہ خود پیدا وار ہوتے ہیں، زندگی کے ان تمام عناصر کی جن کو مجموعی طور پر زمانہ اور ماحول کہتے ہیں۔“(۱)
معاشرے کی ظاہری سطح پر جب سکوت چھا جائے تو نئے خیالات کہاں سے آئیں گے۔غدر کی جنگ میں برصغیر کی شکست دراصل ایک تہذیب کی دوسری تہذیب سے شکست تھی پرانی اور فرسودہ دنیا پر ایک نئی دنیا کی یلغار تھی ۔انگریز اپنے ساتھ نئی سائنسی ایجادات اور منصوبے لے کر آئے تھے ہندوستان کے باشندے اپنی شکست پر کبیدہ خاطر بھی تھے اور انگریزوں کے ساز وسامان پر متحیّر بھی،ان کے دل بری طرح کانپ رہے تھے،مگر ہو نی کب رکتی ہے۔ زمانہ کبھی کہیں نہیںٹھہرتا اورنہ ہی تنقید اور تخلیق دونوں کا سفر کبھی رکتا ہے، اگر کبھی دونوں رسوم و قیود کی پابند ہو جائیں تو ایک بھونچال آ جائے جو کسی بھی ہیبت ناک اور سکوت آمیز لمحات میں اچانک تاریخ اور تہذیب کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔ ایسے قیامت خیز لمحات میں پورے سکون کے ساتھ ٹھہر کر مکمل ہوش و حواس کے ساتھ حالات اور اپنے فرائض کا جائزہ لینا ہر دانشور پر فرض ہے۔ اسے اپنی تاریخ تہذیب سے رجوع کرنا چاہیے اور پھر اپنی سمت کا تعین کرنا اور عملی قدم اٹھانا ،دانشورانِ عصر کا فریضہ¿ اولین ہے۔ایسے حالات میں برصغیر کے منظر نامے پر غالب کی تشویش زدہ آواز، سرسید اور حالی اور مولانا آزاد کی جدوجہد اور کاوش سے ایک سمت کے تعین کے بعد عملی طور پر علمی اور ادبی اصلاح کے کارِ عظیم کا آغاز ہوا۔سرسید اور ان کے ارکانِ خمسہ نے ادب، تاریخ اورعصرِ حاضر کے علوم کے فروغ اور اس کے حصول کے لیے مایوس ذہنی اور فکری پسپائی کی شکار قوم کو نہ صرف آمادہ کیا بلکہ اسے باعمل قوم بھی بنا دیا ۔
فورٹ ولیم کالج (۴ مئی ۰۰۸۱ء) سے لے کر علی گڑھ تحریک کے قیام تک برصغیر میں انحطاطِ فکر کا دور تھا جسے عزیز حامد مدنی عہدِ فرنگ کہتے ہیں۔ زندگی تحرک العمل سے دور تھی یہ ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک تہذیب اور ثقافت کی شکست و ریخت کے بعد کا دور تھا جس میں مجلسیں حاضرین سے خالی تھیں، چراغ بجھے ہوئے تھے، جام الٹے ہوئے تھے۔گل کرائسٹ نے فورٹ ولیم کالج جن اصولوں کی روشنی میں بنایا تھا ، سرسید کے اصول بھی وہی تھے مگر مقاصد اور نظریات جداگانہ تھے۔ گل کرائسٹ کا مقصد ہندوستان میں سامراجیت کی جڑیں مضبوط کرنا اور عیسائیت کا فروغ کا جبکہ سرسید کا مقصد مسلمانوں کو علومِ جدید خصوصاََ سائنس اور عقلی علوم کی تعلیم کے حصول کی سمت متوجہ کرنا اور بامقصد زندگی گزارنے کے لیے تیار کرنا تھا، جس سے معاشرے میں تبدیلی کا آغاز ہوا اور صحیح معنوں میں علی گڑھ تحریک ایک ایسی علمی اور فکری تحریک تھی جس نے برصغیر کی ذہنی پسپائی اور جمود زدہ فضا میں جینے کی امنگ پیدا کر دی۔
سرسید کی عقلی اور فکری تحریک کے بعد اقبال کی آواز نے سوئے ہوئے ذہنوں کو جھنجھوڑااور خاص قسم کی فضا تخلیق کرنے کی کوشش کی اس کے بعد سب سے اہم واقعہ برصغیر میں ترقی پسند تحریک(۵۳۹۱ئ) کا قیام ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد اور دوسری جنگ عظیم سے پہلے کے درمیان کے عرصے میں وجود میں آئی، جس کے بنیادی مقاصد جبرو نا انصافی، روایت پرستی اور جہالت کے خلاف جدوجہد کرنا اور شعور و فکر کو بیدار کرنا تھے۔ترقی پسند تحریک نے برصغیر کے رسوم و قیود میں جکڑے ہوئے سامراجیت کے شکنجے میں سسکتے ہوئے حبس زدہ معاشرے میں تازہ ہوا کے در کھولے اور ادبی و سماجی سطح پر ہمہ گیر اثرات مرتب کیے، خصوصاََ ادبی، علمی اور فکری سطح پر نئے علوم کی ترویج میں فعال اور اہم کردار ادا کیا۔
یہ وہ دور ہے جب عزیز حامد مدنی ، حبیب تنویر اور ان کے ساتھی شعور و فکر کی وادی میں داخل ہو رہے تھے۔ مدنی صاحب کے والد محمد حامد ساقی ڈپٹی کلکٹر تھے اور علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے ، علامہ شبلی نعمانی کے شاگردِ رشید تھے سو وہ جدید تعلیم کو بچوں کی ذہنی ساخت و پرداخت کے لیے نہایت ضروری سمجھتے تھے اور ان کے سامنے اپنے والد ڈاکٹر محمداحمدصدیقی کی اور اپنے پردادا ملّا احمد جیون کی مثال تھی جنھوں نے علم وفضل میں برصغیر میں نام پیدا کیا تھاسو وہ نہایت اعلیٰ خطوط پر بچوں کی پرورش کرنا چاہتے تھے اور انھوں نے کی۔وہ اعلیٰ افسر بھی تھے اور شاعر بھی سو دونوں جہتوں سے عزیز حامد مدنی پر ان کے شخصیت کے اثرات مرتب ہوئے۔ مدنی نے سنِ شعور ہی سے اپنے گھر میں رائے پور کے مشاعروں میں ساحر، جگر اور منظور حسین شور کو دیکھا ، علی گڑھ میں اقبال اور جوش کے نغموں کی گونج سنی، مجاز ، جذبی، علی سردار جعفری اور دیگر کے ساتھ بمبئی میں ترقی پسند تحریک کی نسشتوں میں شریک رہے۔ انھوں نے فیض اور راشد کی شاعری کا عمیق مطالعہ کیا مگر ان پر اثرات اقبال اور جوش کے مرتب ہوئے ، جن کی شاعری میں شعریت کے ساتھ ساتھ علم و حکمت، دانش و بینائی بھی تھی، اس علمی و ادبی فضا میں ان کی پرورش ہوئی۔تقریباََ یہی وہ دور ہے کہ جب مشرق میں مغربی ادب کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ انھوں نے مغربی ادب کا بھی نہایت ذوق و شوق سے مطالعہ کیا کیونکہ وہ انگریزی کے طالب علم بھی تھے اور انھوں نے انگریزی میں ہی ایم اے کیا۔حبیب تنویر کے بقول مدنی ہمیشہ برناڈ شا، آڈن، شیکسپئر اور دیگر مغربی ادیبوں کے حوالے دیا کرتے تھے ۔ اس مغربی ادب کے مطالعے نے ان پر نئی فکری جہتوں کے در باز کر دیئے۔یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی مکمل ترقی پسند نہیں رہے، وہ روشن خیال ادیب تھے اور علم کی بات انھیں جہاں سے ملی اپنے دامن میں سمیٹ لی۔عزیز حامد مدنی کے نزدیک ادب روحِ عصر کا لبِ گویا ہے اور یہ لبِ گویا کسی ایک نغمے کی لے کو دہراتے رہنے کا پابند نہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان کی فکراقبال اور جوش کے افکار سے بالیدگی تو حاصل کرتی ہے مگر مردِ مومن اور انقلاب انقلاب کے بلند آہنگ نعرے یا شاعرِ شباب کے سے ترانے نہیں گاتی بلکہ ادب کو مسلسل ایک فکری سفر کا استعارہ سمجھتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
”شعر میں سب سے گہرے دکھ اور سب سے گہری خوشی کا انکشاف ہوتا ہے، دل کی زرخیز مٹی میں پڑے ہوئے کسی بیج سے نوخیزی¾ شاخِ گل سے شاعر کے سر کا تاج بھی بنتا ہے اور کفن کی چادر بھی۔“(۲)
اور ایک فکری سلطنت میں تما م علوم و فنون آتے ہیں۔ایسے دور تغیّر میں جب زندگی کے تمام زاوئیے تیزی سے اپنا رنگ بدل رہے ہوںسبھی دائرے سبھی حلقے سیماب پا ہوںاس دور کے دانشور اور ادباءکسی بند گلی میں نہیں رک سکتے سب کواپنی اور اپنی قوم کی بقا کے لیے جد وجہد کرنی پڑتی ہے ۔عزیزحامد مدنی فرماتے ہیں:۔
”ایک ایسے دور میں جب سائنس روشنی کی رفتار کے ہم قدم ہونے کی سعی میں ہے یا فلسفہ خود سائنس کی بنائی ہوئی حقیقتوں کی بنیاد پر اپنی اصطلاحوں کو بدلنے کی فکر میں ہے جب صنعتی ماحول زندگی کو اپنے اصولوں کی پابندی کا اسیر کرنے کو ہے۔ ۔۔فردا یا غمِ فردا اس ابدی جال میں گرفتار ہیں ،مختلف سمتوں کی موجِ دود،بدلتے ہوئے افق کی روشنی ، مختلف دائروں کا رنگ اس کی طرف رخ کیے ہوئے ہے۔ آج کے شاعر کے احساسات و جذبات، وجدان و فکر کو روزانہ کی مزدوری سے لے کر خوابِ ہمکناری تک کی تمام منزلیں ایک جیتی جاگتی دنیا میں گزارنی پڑتی ہے۔ میڈیکل سائنس میں ،انجینئرنگ میں، پلاننگ میں وہ محبت اور خلوص جو صرف شاعری کے محاورے تک محدود تھااپنا عملی تجربہ کر رہا ہے۔اس لیے شاعرکی منزلِ دید کو اس آگہی کو اس صدی میں اور بھی وسعتیں ملی ہیں۔“(۳)
نئی صدی میں نئے علوم کے در باز ہونے لگے جب تغیّر و تبدل کا عمل آغاز ہوتا ہے نئے شعور کے پرانی دستاویزات پردستخط ہوتے ہیں تو زبان فکر کا حوالہ اور محاورہ بدل جا تا ہے مگر اس سے پہلے تبدیلی معاشرے میں شروع ہو چکی ہوتی ہے۔جمیل جالبی فرماتے ہیں :۔
”شعور کوئی ایسی چیز تو ہے نہیں جو خلاءمیں پیدا ہوتا ہے، شعور تو بنتا ہی فنکار کے ارد گرد کے ماحول سے ، زندگی کے بارے میں اس کے زاویہ¿ نگاہ سے ، انسانیت کے بارے میں اس کے تجربات سے، زندگی کے قدیم و جدید ادراک و شعور کے تضاد و تقابل سے، جب یہ اور ایسے کئی عوامل اس کے مزاج کو متعین کر دیتے ہیںتو شعور متشکل ہو کر اپنا رویہ قائم کر لیتا ہے۔ ان اثرات کی پذیرائی جتنی واضح ، جتنی گہری اور منفرد ہو گی اسی قدر وسعتیں اس دامن اور حلقہ¿ اثر میں سمٹتی چلی آئیں گی۔اسی لیے جب مکمل شعور ادب میں ظاہر ہوتا ہے اور چونکہ روحِ عصر اپنے پورے مبتضیات اس میں موجود ہوتی ہے اس لیے اس کی شعاعیں مشعلِ راہ بن کر زندگی کو آگے بڑھانے اور نکھارنے میں مدد یتی ہے۔“(۴)
تخلیق سے وابستہ اذہا نِ عالیہ اپنے عصر کے شعور اور مابعد عصری شعوری کے ترجمان ہوتے ہیں جس کی تہہ داری اور پیچ داری کا سلسلہ بہت گہری جڑیں اپنی تہذیب اور تاریخ سے، حال اور متقبل سے پیوستہ رکھتا ہے اور مختلف سیاسی، سماجی، ادبی ، حالات و واقعات ، انکشافات و ایجادات اور ہمہ وقت ،ہمہ جہت تغیرّ سے جڑا رہتا ہے جو ایک سمت اس کی نشو و نما، دوسری سمت ذہن ِانسانی کی پرورش کرتا ہے اردو ادب میں عزیز حامد مدنی سے قبل اختر حسین رائے پوری جو مدنی صاحب کے قریبی عزیز تھے۔ اور احتشام حسین ایسے نقاد گزرے ہیں جنہوں نے اردو ادب کا مطالعہ سائنٹیفک شعور کی روشنی میں کیا ہے عزیز حامد مدنی فرماتے ہیں کہ ’ذہن انسان نہ جانے کتنے موڑ کاٹ کر اس منزل پر پہنچا ہے‘ سید احتشام حسین نے سائنٹیفک تنقید کی یوں تشریح کی ہے کہ:۔
”سائنٹیفک نقطہ نظر وہ ہے جو ادب کو زندگی کے معاشی، معاشرتی اور طبقاتی روابط کے ساتھ متحرک اور تغیر پذیر دیکھتا ہے یہ ایک ہمہ گیر نقطہ نظر ہے اور ادبی مطالعے کے کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کرتا۔“(احتشام حسین سید، تنقید نظریہ اور عمل ۔ ص۔۵۴۱)(۵)
ڈاکٹر سلیم ا ختر سائنٹیفک تنقید کی اصطلاح کے باب میں لکھتے ہیں کہ:۔
”تنقید میں سائنس اور سائنٹیفک جیسی اصطلاحات بڑی گمراہ کن ثابت ہوئیں کیونکہ تجزیاتی اورا ستقرائی کے علاوہ”تاریخی تنقید اور مارکسی تنقید کو بھی عموماً سائنٹیفک کہا جاتا رہا ہے ۔ سائنٹیفک تنقید کسی جداگانہ دبستان کا نام نہیں ہے بلکہ تنقید کا ہر وہ طریقہ جس میں نقاد علمی انداز نظر اپنا کر کسی سائنس دان جیسی غیر جانبداری سے کام لیتے ہوئے، ذاتی پسند و نا پسند اور نجی تعصبات سے ماورا ہو کر تخلیق کی چھان پھٹک کرتا ہو وہی سائنٹیفک تنقید کہلاتی ہے۔“(۶)
یعنی زندگی کی پوری کلیت کے ساتھ (بجائے کسی ایک نظریے کے ) فن پارے کا تجزیہ کرنے کا عمل”سائنٹیفک تنقید ہے“ اور سائنٹیفک کوئی گمراہ کن اصطلاح یا لغو نظریہ¿ نقد نہیں اس کے ہر دبستانِ فکر کی مانند کچھ اصول و ضوابط ہیں جن کی وضاحت خاطر غزنوی یوں فرماتے ہیں کہ :۔
”کسی ادب پارے کو پرکھنے کے لیے دو پہلو غور طلب ہوتے ہیں۔ پہلا مواد، دوسرا طریقہ¿ اظہار اور ہیئت، اس طرح تنقید کے بھی دو پہلو ہوتے ہیں ۔ زندگی کی اقدار اور فنی جمالیات اقدار کا جائزہ کسی ادب پارے میں زندگی کی اقدار کا پتہ لگانے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس تصنیف کے کیا محرکات ہیں اور ادیب نے اس موضوع کوکیوں منتخب کیا ہے۔ آیا سماجی طور اس موضوع کی کوئی اہمیت اور قدرو قیمت ہے۔ ادیب ان مسائل کو نبھانے میں کامیاب ہوا ہے آیا وہ کسی خاص طبقہ یا نقطہ نظر کی ترجمان کررہا ہے۔ نقاد کا ان تمام امور پر غور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے معاشرے کے مختلف پہلوو¿ں یعنی تمدنی حالات، معاشیات، سیاسیات، تاریخ، فلسفہ اور نفسیات سے واقف ہونا چاہیے۔ سوانحی اورت اےریخی تنقید بھی حقیقت میں”سائنٹیفک تنقید“ کے اجزا ہیں۔ اس طرز تنقید اور مادام ڈی اسٹیل بھی اس نظریے کے قائل تھے۔ “(۷)
احتشام حسین، ممتاز حسین،عبادت بریلوی، آل احمد سرورڈاکٹر محمد حسن اور عزیز حامد مدنی کا شمار”سائنٹیفک تنقیدی“ ناقدین میں کیا جاتا ہے انہوں نے ترقی پسند فکر کے ساتھ تاریخ و تہذیب حیات و کائنات کے تمام رائج الوقت علوم سے ادبی تنقید کے لیے استفادہ کیا اور جدیدا دبی تنقید کو نئے علوم کے افکارو نظریات سے روشناس کراتے ہوئے۔ رسمی اور انتہا پسند نظریاتی تنقید کے دائرے کو محدود کیا اور کشادہ تنقیدی فضا استوار کی۔ کلیم الدین احمد ،ڈاکٹر محمدحسن کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ:۔
”یہ احساس کہ”مارکسی دبستان تنقید“ کافی نہیں ،ضرورت اس امر کی ہے کہ ادب کی تفہیم کے لیے تنقید کے سبھی پیمانوں اور طریق کار کو مناسب حد تک عمل میں لایا جائے یہ احساس ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اور مارکسی تنقید میں ایک سنگ میل ہے۔“ (۸)
تا کہ ایک طرف تو ادبی تنقیدمحض عمل کی مشق ہو کر نہ رہ جائے،اور دوسری طرف ادب کو اس کی تما م فکری اور جمالیاتی تہہ د اریوں کے ساتھ پہچان سکے۔ ڈاکٹر شارب ردولوی کے بقو ل: –
”ڈاکٹر محمد حسن نے ادبی تخلیق کے مطالعہ کے لیے جو اصول پیش کیے ہیں۔ وہ ترقی پسندانہ اور سائنٹیفک ہیں جس میں تحقیق ‘ نفسیات ‘ سیرت ‘ عمرانیات ‘ سماجی علوم‘ اقتصادیات‘ جمالیات اور تاریخ سب چیزیں شامل ہیں ۔جس سے ان کی ہمہ گیری اور وسعتِ نظری کا ثبوت ملتا ہے۔“(۹)
ڈاکٹر محمد حسن ہوں کہ احتشام حسین ،ممتاز حسین ہوں عزیز حامد مدنی ان سائنٹیفک ناقدین نے قدیم و جدید علوم اور اثرات و نظریات کے تحت اردو تنقید کو نئی جہتوں سے آشنا کیا اور تنقید کو زیادہ باثروت با علم اور قابل قبول بنانے کی کوششیں کیں وہ اپنی تنقید میں زندگی، ادب، سماج، ماحول یا زمانے کے کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کرتے۔عز یز حامدمدنی یونان، دنیائے اسلام انقلاب فرانس، انقلاب روس اور چین کی نظریاتی سیاسی و ادبی کشمکش کے ساتھ گلوم اپولی نیار ،بادلیئر، گلیلیو، آئن اسٹائن، ژاں پال سارتر، فرانز فینن، فرائیڈ اور دیگر کے انکشافات و ایجادات اور تخلیقات سے اردو تنقید کے وسعت و کشادگی عطا کرتے ہیں ان کے پیش نظر، نظریات سے زیادہ ان کی نظر و حکمت، دانائی و فراست پر تھی جس کی تلاش انہیں کشاں کشاں ان علما و حکماءکے دفاتر تک لے گئی جہاں دانش و افکار کے خزف ریزے نگینوں کی طرح دمک رہے تھے۔ وہ فن پارے کی خوبی و خامی کا تجزیہ¿ اس کے جمالیاتی پہلوو¿ں، فنی محاسن کے ساتھ سماجی و تاریخی عوامل کو روشنی میں کرتے تھے مثلاً عزیز حامد مدنی ،ن۔ م راشد کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ:۔
”راشد کی شاعری کے دو، دوران کے کلام الگ الگ نظر آتے ہیں پہلے دور میں ایک سماجی شعور، زندگی کی حقیقتوں سے قریب تر اپنی تاریخ و تہذیب کا پس منظر ہے۔ جو انسانی زندگی کی تلخیات اور ناکامی کے تجربات کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں میں سامنے آتی ہے۔ دوسری بات جو ان کے اسلوب کے ارتقا میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ راشد نے مشرقی فضا میں جس عمیق فکر اور تازہ حسیت کے زاویے ان قطعات (اپنی شاعری) میں سمیٹے ہیں ان کی مثال جدید اردو شاعری کا ایک معیار ہوگئی ہے۔“ (۰۱)
عزیز حامد مدنی کا کمال فکر یہ ہے کہ آپ روایت اور جدت کو ایک پیمانے پر ساتھ رکھتے ہیں روایت میں جیسا کہ ہماری تاریخ ہمارے معاشرے کی حد بندی کا ایک تصور ہے اور اس تصور کی مثال مدنی ”شفاف ترچشمہ جاری“ سے دیتے ہیں مگر معاشرہ اور ادب تمام تر حد بندی اور پابندی کے باوجود اپنے اندرون میںاپنے بطن میں ارتقا پذیر رہتے ہیں اور متحرک فکر کے اثرات ان پر رونما ہوتے رہتے ہیں جہاں یہ تغیرّ رک جائے وہاں فکری قوتیں ماند پڑ جاتی ہیں ۔ جو زبان اورا دب، روایت کے سر چشمے سے بھی فیضیاب ہو اور علومِ حاضرہ سے خارجی اورداخلی سطح پر متحرک بھی رہے اسی کو روحِ عصر کہتے ہیں اور اسی کو سائنٹیفک شعور کہ جس کے تسلسل میں کہیں خلا نہ ہو۔ جس کے مرکز پر قدیم و جدید علوم کے سب دھارے یکجا ہو جائیں۔مدنی صاحب فرماتے ہیں کہ :۔
”جدید فکر ظاہر و باطن میں ایک سیل بے کراں ہے اس سیل میں سیاسی، نفسیاتی، جنسی، علامتی، غیر علامتی، بلاخیز موجوں کا دیوانہ پن ہے۔ کھلے خزانے یہ سیل بے کراں اپنے ضدی، منہ زور، سرکش دھاروں کی رو میں عہد بیشیںکے بسائے ہوئے شہر بہالے گیا جب اس سیل کی ایک گردش پوری ہوگئی تو شعور وجدان نے ایک نئے اضطراب میں ڈھلنا شروع گیا….یہ اضطراب کہیں ایک سوال کی صورت میں کہیں ایک ہمت جواب کے لباس میں اور کہیں محض”ایک طلسمِ پیچ و تاب“ کی حیثیت سے نمایاں ہے۔“ (۱۱)
سائنٹیفک شعور کی رو انسان کو لامحدود اور وسیع افکارو خیالات کی کائنات سے ہم کنار کرتی ہے جو اس کے کرب اور اضطراب میں اضافہ بھی کرتی ہے اور اسے سکون آمیز سہولت بھی بہم پہنچاتی ہے کہ وہ اپنے تجسس اور ذوق جستجو کی تسکین کے لیے جدید تر ایجادات سے فائدہ اٹھائے خارجی اور داخلی کائناتوں کی سیر کرے اور زندگی کی نئی سمتوں اور زاﺅیوں کو پاسکے۔ ڈاکٹر آغا سہیل سائنٹیفک تنقید کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ:۔
”سائنٹیفک تنقید کے تمام منہاج و خطوط معین ا ور متعین ہیں اور باہم مربوط، جو ریاضی کے ہندسوں کی طرح قطعی اور ناگزیر ہیں۔ ایسے علوم جو حقائق محققہ کی ذیل میں آتے ہیں وہ انسانی اور کائنات کے باہمی ارتقائی ربط کو ظاہر کرتے ہیں اور انہی سے کائنات کی ترقی اور انسان کا ارتقا وابستہ ہے۔ اس لیے وہ تمام معاشرتی علوم جو انسان کے معاشرتی ارتقاءمیں بالواسطہ یا بلاواسطہ مدد گار ہوتے ہیں۔ “(۲۱)
اکیسویں صدی کا ادب، دوسری جنگ عظیم کے بعد کی دنیا اور ادب اس فضا میں پنپ رہے ہیں جس کے چار سو شجر علم کی ان گنت شاخیں مختلف علوم نو کے پھلوں سے لدی ہوئی ہیں جن کی اشتہا انگیز خوشبو ، دلکشی دعوت نظارہ دہی بڑھتے قدم روک لیتی ہے احساسات و جذبات علامات و تشبیہات افکارو خیالات کی کایا پلٹ رہی ہے۔ عزیز حامد مدنی نے تغیرّ کی زد میں آئے تنزل پذیر معاشرے میں شعور سنبھالا اور انہوں نے سیاسیات، اخلاقیات، معاشیات، سماجیات اور مذاہب کے ہر رخ کو بہت قریب سے د یکھا اور پھر بہت سوچ سمجھ کر اپنے لیے ادب کا راستہ منتخب کیا اور سائنٹیفک شعور سے اپنی ذہنی فکری رو کو متصل کیا جس نے ان پر انکشافات تازہ تر واردات کے دروا کر دیئے وہ ادب کی انفعالیت کو انسانیت کی فکر کی، اخلاق کی انفالیت سمجھتے تھے وہ رجائی نقطہ نظر رکھتے تھے مگر ارد گرد کا ماحول اور حالات کچھ اور تھے جس کا واضح عکس سارے عہد کی شاعری میںنمایاں نظر آتا ہے سو وہ ان کی شاعری پر بھی ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ سارا عہد تخلیقی طور پر بہت سر گرم اور تندو تیز ہے ہر مجلس، ہر مکتبہ¿ خیال، ہر درسگاہ میں فکر کا ایک نیا رخ ملتا ہے اس دور کا ادب بر صغیر کی فکری اور سیاسی بیداری کا نقیب ہے اور اس کی تحریکِ آزادی کا ایک اہم حصہ ہے۔ جہالت و غربت، کا ہلی و بے عملی کے خلاف ادب اور تنقید سر گر م عمل تھے تاکہ بر صغیر میں سامراجیت کے دبیز اور کثیف بوجھ تلے دبی سسکتی زندگی پورے فخر اور وقار کے ساتھ پھر اپنے قدموں پر جلوہ گر ہوسکے۔ جس کی فضاو¿ں میں حسن پنپ سکے، عشق کے الاپ گونج سکیں انسان اور کائنات کے نئے رشتے ترتیب پا سکیں اور تہذیب و تمدن، علم و ادب پر مبنی معاشرے کی تشکیل و تنظیم کا خواب حقیقت تعبیر ہوسکے اور انسان مسکرا کر کہہ سکے۔
تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی
پائے جنوں سے حلقہ¿ گردشِ حال لے گئی
تیز ہوا کی چاپ سے تیرہ بنوں میں لَو اُٹھی
روحِ تغیرّ جہاں آگ سے فال لے گئی
٭٭٭==٭٭٭
حوالہ جات
(۱): مجنوں گورکھ پوری، شعر اور غزل،ایشیا پبلشرز،کراچی،سن ندارد،ص ،۶۸۱،۷۸۱
(۲): عزیز حامد مدنی، دانشِ حاضر کے سواد میں، مشمولہ، سوغات، نئی نظم نمبر، بنگلور، ۱۶۹۱ئ، ص ، ۹۶۲
(۳):عزیز حامد مدنی، سوغات،نئی نظم نمبر،بنگلور،۱۶۹۱ئ،ص۔۲۷۲۔۳۷۲
(۴): جمیل جالبی ڈاکٹر،ادب کلچر اور مسائل، رائل بک کمپنی ،کراچی، ۶۸۹۱ئ، ص۔۲۶۔۳۶
(۵): شارب ردولوی،جدید اردو تنقید، اتر پردیش اردو اکادمی،لکھنو¿ ،۴۹۹۱ء،ص۔۷۶۳
(۶): سلیم اختر ڈاکٹر۔ تنقیدی دبستان۔ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور۔ ۷۹۹۱ء،ص ۹۶۲۔ ۰۷۲
(۷): خاطر غزنوی ،جدید اردو ادب،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۵۸۹۱ء،ص۔۲۸۔۳۸
(۸): کلیم الدین احمد ، اردو تنقید پر ایک نظر، پورب اکادمی، اسلام آباد، ۲۱۰۲ئ، ص ۔۵۵۲
(۹):شارب ردولوی ڈاکٹر،جدید اردو تنقید(اصول ونظریات)،اتر پردیش اردو اکادمی،لکھنوئ،۴۹۹۱ئ،ص۔۴۸۳
(۰۱):عزیز حامد مدنی، جدید اردو شاعری(حصہ دوم۔ انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی، ۴۹۹۱ئ، ص ۔۱۵
(۱۱):عزیز حامد مدنی،دانش حاضر کے سواد میں،مشمولہ، سوغات،(نئی نظم نمبر) بنگلور، ۱۶۹۱، ص ۔۶۶۲۔۷۶۲
(۲۱):آغا سہیل ڈاکٹر،ادب اور عصری حسیّت،مکتبہءعالیہ ،لاہور،۱۹۹۱ئ،ص۔۷۱

— ‎with ‎Abrar Ahmad, Syed Kashif

Leave a Comment