مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

( تعلیم ‘‘ بطور سرمایہ کاری( ثمینہ سید ’’

سٹوارٹ مل:’’تعلیم وہ کوشش ہے جو کہ معاشرہ اپنے افراد کو اچھے شہری بنانے کے لئیے کرتاہے۔تعلیم کا مقصد ثقافت کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے تا کہ وہ اپنے معیار ترقی کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کو بہتر بنا سکیں۔
افلاطون :’’تعلیم معاشرے کی متوازن تنظیم کا عمل ہے‘‘
اور سر سید احمد خان نے کہا
’’تعلیم وہ عمل ہے جو انسان کی صلا حیتوں کو اجاگر کرتا ہے۔اسے کسی ہنر کے اصول کے قابل بناتا ہے‘‘
تعلیمی سرمایہ کاری اصل میں نوجوانوں کی ایسی تربیت ہے کہ جو ان پر خرچ کیا جائے وہ اپنی صلاحیتوں سے اپنے ملکی وسائل کو بڑھانے کا سبب بنیں اور ملکی وسائل کو بھرپوربروئے کار لا کر پیداوار میں اور طرز زندگی میں انقلابی تبدیلی لا سکیں۔تعلیم کا معاشی ترقی سے براہ راست تعلق ہے۔کہیں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ تعلیم پہ پیسہ خرچ کرنا بیکار ہے کیونکہ کارخانوں پر یا اور نوعیت کے کاروباروں پر خرچ کیا پیسہ فوری طور پر واپس آ جاتا ہے بلکہ منافع بھی وصول ہونے لگتا ہے۔ جبکہ تعلیم پر خرچ شدہ پیسہ بہت صبر ٓزما وقت لیتا ہے۔
تعلیم کے سبب ہم حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھتے ہیں موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور زرعی اور صنعتی شعبوں میں مشینری کی بہتات کا دور ہے کمپیوٹر کے استعمال کے بغیر زندگی گزارنا تقریباٰناممکن ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کو دیکھئے جرمنی فرانس،امریکہ ،برطانیہ چین اور جاپان ان ممالک نے تعلیم کو بطور سرمایہ کاری لیا۔اور قومی پیداوار میں حیرت انگیز نتائج حاصل کئے۔ان ممالک نے ثابت کیا کہ تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کس قدر منافع بخش ہے۔
ایک چینی کہاوت ہے
تمہارا منصوبہ اگر سال بھر کے لئے ہے تو فصل کاشت کرو،دس سال کے لئے ہے تو درخت اگاواور اگر دائمی ہے تو مناسب یعنی ہنرمند افراد پیدا کرو‘‘
تعلیم وہ عمل ہے جس کے ذریعے مناسب افراد پیدا کئے جا سکتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ تعیم کی سمت متعین کر دی جائے بے مقصد پڑھتے چلے جانا کافی یا منافع بخش نہیں ہو سکتا۔معاشی ٓسودگی کے لئے تعلیم کی سمت متعین ہو تو انسان اپنی صلاحیتوں کو بہتر استعمال کرے گا وہ فیصلہ کر سکے گا کہ کون سا کام وہ بہتر کر سکتا ہے۔کس شعبہ زندگی میں وہ بھرپور کام کر سکتا ہے ۔انسان قدرتی وسائل کو استعمال کر کے نت نئے منصوبے بنا سکتا ہے ۔پہاڑ ،زمین، سمندر ریگستان انسان کے منتظر ہیں کہ وہ ان کو کھوج کر ان سے خزانے دریافت کرے اور اپنے ملک و ملت کے لئے مفید فرد ثابت ہو۔
قرآن پاک میں بھی ہے کہ غور کرو اور کھوجو زمین کے خزانوں کو عقل والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔تربیت یافتہ افراد بھی جو اس شعبے کے متعلق علم نہیں رکھتے زیادہ مفید ثابت نہیں ہوتے لہذا تعلیم جتنی ضروری ہے اس کی سمت کا تعین بھی اتنا ہی ضروری ہے۔اگر بچے کو اس کی دلچسپی اور ذہانت کے رحجان کے بغیر پڑھنے پر مجبور کیا جائے جو کہ ہمارے معاشرے میں بہت ہی عام ہے تو وہ زیادہ سود مند ثابت نہیں ہو گا۔بہتر ہے تعلیم پسند اور رحجان کے مطابق ہوتو ہمیں دوسرے ممالک سے ماہرین کی مدد نا لینا پڑے جس سے ہمارے مقاصد اگر حل ہو بھی جاتے ہیں تو سرمایہ دوسرے ممالک کو منتقل ہو جاتا ہے معاوضہ کی صورت میں۔
قومی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی سرمایہ کاری کی جائے منصوبہ بندی کی جائے۔قومی تشخص اور عزت کے لئے تعلیمی سرمایہ کاری کر کے جدید تعلیم عام کی جائے اور بہتر تو یہ بھی ہے کہ تعلیم کسی قدر کم مہنگی ہو اور معیار دوہرے نا ہوں تو کشمکش پیدا نا ہو جس میں صلاحیت ہو وہ آسانی سے ترقی کے مراحل پورے کر سکے اور خود کو تعلیم یافتہ سرمایہ ثابت کر سکے۔تعلیم کا مقصد تبھی سامنے آتا ہے جب فرد کو اس کے فطری رحجا نات کے مطابق تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔
تعلیم سے زیادہ نفع بخش کوئی دوسرا میدان نہیں ترقی یافتہ ممالک کی شرح تعلیم عام طور پرپچانوے فیصد تک ہوتی ہے،اور اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی تعلیم سرمایہ کاری کے نظریہ پہ استوار ہوتی ہے۔

 

Leave a Comment