ناصر کاظمی نے جس زمانے میں شعور کی آنکھ کھولی اس میں ترقی پسندی یا مارکسی آئیڈیالوجی کے زیر اثر لکھے جانے والے ادب کو وسیع پیمانے پر سند قبولیت حاصل تھی۔ عصری فلسفوں کی موشگافیوں کا دور دورہ تھا۔ میراجی نے سورئیلی شاعری اورنئی شعری تکنیکوں کو پر کشش جانا تھا۔ انسان ،کائنات اور ماحول کے اسطوریاتی مطالعے عمومی تھے ۔مگر ناصر کاظمی نے ان وتیروں کی جانب توجہ نہیں کی۔وہ اپنے خالص حسی اور ادراکی تجربات کو احاطہ قلم میں سمیٹنے کے قائل تھے ۔ان کے ذاتی تجربے ایک پسماندہ انسان کے تجربے تھے اس حوالے سے وہ اجتماع پر گزرتی قیامتوں سے مانوس تھے ۔انہوں نے اپنے عہد کے سیاسی، معاشی اور ثقافتی ماحول میں سر سراتے عذابوں اور انسان کش رویوں سے گہری نسبت ظاہر کی۔ان کی غزلوں میں موجو د کوایف سے اس امر کا سراغ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد رونما ہونے والے سانحوں سے واقف تھے ۔وہ اپنے ان تجربوں کو عام فہم ،سادہ اور روز مرہ زبان میں قارئین کے سامنے لاتے تھے ۔سہل ممتنع کے استعمال میں اندیشہ ہوتا ہے کہ شعریت کو نقصان پہنچے لیکن ناصر کاظمی کا سادہ طرز بیان شعری کوایف کا نقیب تھا۔
جس طرح و رڈزورتھ نے انسان اور فطرت کے بنیادی مظاہر کو عارضی اور اتفاقی زینتوں پر فوقیت دے کر سیدھی سادی زبان کو اپنایا تھا اسی طرح ناصر کاظمی نے اپنے روزمرہ کے تجربات کو روزمرہ زبان میں استعمال کیا ہے ۔انہوں غالب، اقبال، جوش، فیض اور ن۔م ۔راشد کی پر شکوہ روائتوں سے زیادہ حالی، فراق اور میراجی کے لسانی سانچوں کو اہمیت دی ہے ۔ اپنے تجربات اور جذبات کا براہ راست سچا اور کھرا اظہارکرتے ہوئے عام فہم شعری اطوار کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
ناصر کاظمی بطور شاعر اپنے رومانوی لب و لہجہ کی بدولت نوجوانوں میں مقبول ہیں اور اپنے تہہ دار تعقل کے باعث غزل کے سنجیدہ قارئین کی توجہ کھینچنے پر قادر ہیں۔ ان کے گھر کی دیواروں پر اگر اداسی کا بال کھولنا رومانوی رویئے کی عکاسی ہے تو اس گھر کا علامتی منظر شہر بھر کے گھروں کی داستان سناتا ہے ۔جرس گل کے دوران اگر کوئی کلی انہیں آنکھ بھر کر نہیں دیکھتی اور ان کی اداسی میں اضافے کا باعث بنتی ہے تو اس نوع کی بے قدری جدید انسان کے سینے پر لگے زخم کی کہانی بھی کہتی ہے ۔ناصر کاظمی کی غزلوں میں موجود زیریں فکری لہر استفسار کرتی نظر آتی ہے کہ:
کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سر شام روح کے تار ہلا غور سے سن
اور اس مشہور زماں شعر کو بھی اسی پس منظر میں پرکھنا چاہیئے کہ
’’اے دوست ہم نے ترک تعلق کے باوجود محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی ‘‘
ناصر کاظمی نے جو بات سجاد باقر رضوی کی غزلوں کے حوالے سے ان کے مجموعے ’’ تیشہ لفظ‘‘ پر دیباچہ لکھتے ہوئے کہی تھی وہ ان کے اپنے کلام پر بھی صادق آتی ہے ۔وہ لکھتے ہیں:
’’فنی اعتبار سے ان کی شاعری میں جو چیز ہمیں سب سے پہلے متوجہ کرتی ہے ۔ وہ لفظوں کا آہنگ اور اشعار میں ان کی موزوں نشست ہے ۔ شاعر کا اپنا ذخیرہ الفاظ ہے اور یہ الفاظ مطلب و معانی کی امانت کو بلاتاخیر قاری کے ذہن تک پہنچا دیتے ہیں۔‘‘
اعلیٰ شاعری کے اوصاف میں لفظ و معانی کی ہم آہنگی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ ناصر کاظمی نے اپنے شعری مجموعوں ’’برگ نے ‘‘ ، ’’دے وان‘‘ اور ’’پہلی بارش‘‘ کی غزلوں میں اس اسلوب کو عروج پر پہنچایا ہے ۔ان کے اشعار میں شعری احساسات کی تاثیر الفاظ کے مناسب آہنگ اور موزوں نشست کا عطیہ ہے ۔ان کے اشعار کے تمثیلی پیرایہ اور ڈرامائی کوایف نے ان کو قادر الکلام شاعر کے درجے پر پہنچا یا ہے ۔ناصر کاظمی نے اپنے مجموعے ’’نشاط خواب‘‘ کی نظموں اور ’’سُر کی چھاے ا‘‘ کی ڈرامائی آوازوں میں اپنے وجود کے تجربوں کی لہر در لہر تشکیل کی ہے ۔ انہوں نے اپنے تمام مجموعوں میںجدید لہجے اور معاصر سوچ کی ہم آہنگی سے جادو اثر بیان کے کرشمے دکھائے ہیں۔ان کا یہ شعر میرے خیال کی تصدیق کر سکتا ہے :
اڑ گئے شاخوں سے یہ کہہ کر طیور اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے
ڈاکٹر حسن رضوی نے اپنی کتاب ’’وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر ‘‘میں ناصر کاظمی کے سادہ ، رواں اورموسیقیت سے مالا مال طرز بیان کی استدلالی تعریف کی ہے ۔ انتظار حسین نے علامتوں کے زوال میں ان کی ماے وسی، اداسی ، ہجرت کے حوالوں کو اہمیت دی ہے ۔
اس مرحلے پر ڈاکٹر عزیزالحق کا یہ اقتباس بہت کچھ کہتا نظر آسکتا ہے :
’’وقت کے گزران کے ساتھ بہت سے مخلوط مسائل نے مربوط ہو کر ایک وحدت کی شکل اختیار کر لی۔ ہمارا کلچر، ہماری تہذیب کیا ہے ؟ اور پھر یہ سوال ہمارے ادب و فلسفے کی دنیا میں گونجنے لگا اور پھر اس نے ایک تلاش، ایک گراں مایہ کھوئے گئے سرمائے کی تلاش کی صورت اپنا اور ادب نے اپنا رنگ بدلنا شروع کر دیا۔ نمبر 1 نوٹ: اس مسائل میں ہمارے پاکستان کی تہذیبی و و معاشرتی ڈھانچے کی تبدیلی انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد ہمارا معاشرتی نظام جاگیر دار نوابی کی بجائے سرمایہ کار جمہوری آ گیا اور اس بنیادی تبدیلی کے باعث ہمارے زیست کرنے کے تمام تر دائرے بدلنے لگے ۔ اس نئے نظام کے جغرافیے میں کہیں لائل پور، ملتان، سکندر آباد اور دائود خیل سے شہر نمودار ہوئے تو کہیں گلبرگ اور فاضلیہ کالونی کہیں مزدور تحریکیں اٹھیں تو کہیں ٹیڈی ازم کی……………………………… کہیں کوکا کولا اور سیون اپ، فی یون ٹیوب آئیں تو کہیں سڑکوں کی دل نشین ہریالی پامال ہوئی۔ کہیں مال روڈ پر کاروں کی فراوانی ہوئی تو کہیں ملک میں گندم کی قلت دو لفظوں میں یوں کہیے کہ ایک نئی دنیا بسنے لگی۔ ایک ایسی دنیا جس کے اصول و اطوار پرانی دنیا سے کافی مختلف ہیں، جس کی اقدار جس کا اخلاق، جس کا کردار، جس کے نظریات، جذبات پرانی طرز فکر و نظر سے کافی جدا ہیں۔ اس بدلتی ہوئی دنیا میں ماضی پرست کئی ایک جذباتی و نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا ہو گئے اور ان الجھنوں نے ان کے نجی غموں سے مل کر اس آشوب کی شکل اختیار کر لی جو آشوب نئے لکھنے والوں کی تحریروں میں جا و بے جا نمایاں ہوتا رہتا ہے ۔ مہاجر کلاسیکی ادیبوں کے پاس اس سوال کا جواب موجود تھا جو حقیقت کی سنگدلانہ ضربوں کے باوجود محفوظ رہ گیا تھا وہ اس جواب کو پھیلانے لگے ۔ اسلام ایران اور عرب سے آیا ہوا اسلام، ایران و عرب سے آئی ہوئی تہذیب و ثقافت،(جانے کیسے) ہماری تہذیب و ثفاقت ہے ۔ سپین ہمارا ہے ۔ غرناطہ ہمارا ہے ، مصر ہمارا ہے ، البحیریا ہمارا ہے ، انڈونیشیا ہمارا ہے ، کشمیر ہمارا ہے ، ہم مسلم ہیں، سارا جہاں ہمارا……………………………..(علامہ اقبال عود کر آئے ) اور اس طرح پاکستانی ادب کی دنیا میں انتظار حسین، جیلانی کامران، افتخار جالب، محمد حسن عسکری، سجاد باقر رضوی اور ناصر کاظمی کا نزول ہوا۔‘‘
یوں دیکھا جائے تو ہجرت کے تجربے کی تلخیاں،ناسٹیلجیا، قومی و ملی شناخت کے مسائل غزل میں حسن وعشق کی چاشنی لیے سامنے آنے لگے ۔’’کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے ‘‘ والی منطق سمت در سمت فروغ پاتی رہی۔اور یوں بصیرت سے معمور شاعری کے در وا ہونے لگے ۔رومانوی شعرا ہوں کہ غیر رومانوی سب کے سامنے ایک سوال تھا کہ قیام پاکستان کے بعد ان کی شناخت کیا رخ اختیار کرے گی؟ ناصر کاظمی کے عشقیہ تجربات کے پس منظر میں جس نوع کی بے کلی کا سراغ ملتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شاعری عصری حسیت سے مملوثقافتی فکر کا پر تو لیے ہوئے ہے ۔انہوں نے عامیانہ عشقیہ تجربات اور جذباتی ہیجانوں کے سمندروں میں ڈبکیاں کھانے کی بجائے فکر ی حوالوں کو اپنی ذاتی جہت نمائی اور قومی شناخت کے لیے استعمال کیا