مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

( موازنہ (طاہرہ مسعود


آج ایک خیال آیا کہ بھلی لوکے!یہ کیا بات ہے کہ یہ جو انگریز ہیں یہ بھلا کیوں ہمیں ہر محاذ پر شکست دیتے ہیں۔ ۔ بڑی کوفت ہوتی ہے۔۔۔۔ہر چیز ہم سے الٹ کرتے ہیں۔ اور پھر بھی چھا جاتے ہیں۔ مثلاً اگرہم کسی کو نیچا دکھانا چاہیں تو “ٹھینگا” دکھاتے ہیں۔ جبکہ انہوں نے کسی کو اونچا دکھانا کسی کی تعریف کرنی ہو تو ٹھینگا دکھاتے ہیں اورا س کو “تھمبز اَپ” کہتے ہیں۔ ہم نے کسی کو نیچا دکھانا ذلیل کرنا ہو توٹھینگا دکھا تے ہیں ۔اسی لیے اگر ہم غلطی سے بھی کسی دیسی کو ٹھینگا دکھا بیٹھیں تو وہ توہماری جان کو ہی آجائے مگر اسی دیسی کو اگرانگریز ٹھینگا دکھائیں تو ا سکی باچھیں کانوں تک کھل جاتی ہیں۔ ہم بے چارے”ہائے” اس وقت کہتے ہیں جب تکلیف سے مر رہے ہو۔ اور وہ لوگ اس وقت کہتے ہیں جب خوشی سے چہکتے ہوئے کسی کو ملیں۔ ہم بڈھی اَمّاؤں کو “بے بے” کہتے ہیں وہ لوگ جواں سال لڑکی کو بڑے لاڈ سے” بے بے “کہتے ہیں ۔
ہم بڈھے ابا کو “بابا” کہتے ہیں اور وہ بچے کو، واہ۔۔ ہم بوڑھی عورت کو “مائی ” کہتے ہیں وہ ہر اپنی چیز کو “مائی ” کہتے ہیں۔ اور بڈھی اگر ماں بھی ہو تو “مائی ” کہنے سے بچتے ہیں کہ کہیں خدمت ہی نہ کرنی پڑے۔ہم کھانا بیٹھ کر کھاتے ہیں جبکہ یہ لوگ ٹہل کر چلتے ہوئے کھا تے ہیں اور اس کو “بفے” کا نام دیتے ہیں۔ ان کےا س انداز پر ہم دیسی فدا ہو ہو جاتے ہیں۔ او ر جو خود کو بہت مہذب دکھانا چاہے “بفے” کھانے پر اتراتا ہے۔ چلیں یہاں تک تو ٹھیک ہے یہ شکستیں یا تضادتو قابلِ برداشت ہیں مگر آگے چلیئے، ہم شرم و حیا کو زینت کہتے ہیں جبکہ وہ اس کو بیوقوفی اور خود اعتمادی میں کمی کہتے ہیں۔ ہم مذہب سے لگاؤ کو عقلمندی اور نجات سمجھتے ہیں وہ دقیانوسیت ا ور بزدلی کہتے ہیں۔ ہم اخلاص کو ایک خوبی سمجھتے ہیں جبکہ وہ اس کو سادگی اور کوتاہ نظری کہتے ہیں۔ ہم بڑوں کو ادب سے پکارنا عین ادب سمجھتے ہین جبکہ ان کے ہاں بچوں کو بڑوں کا بھی نام لینا سکھایا جاتا ہے۔ مسٹر “فلاں’ یا مسز”فلاں”۔ ہمارےے بچون کو سکھایا جات ہے کہ برو ں سے آنکھوں میںا نکھٰن دال کر بات نہ کریں انکوسکھایاجاتا ہے کہ آنکھوں میں دیکھ کربات کریں۔یہاں پر بھی اگر ہم نے بندر کی طرح نقالی کی تو ہمیں بہت مہنگی پڑے گی۔ بڑوں سے ڈانٹ پڑ سکتی ہے۔ اگر ہم نے اپنی یہ خوبیاں بھی کھو دیں تو ہم اپنا تشخص مکمل طور پر کھو بیٹھیں گے۔ لیکن اگر ہم ان باتوں پر خود کو قائم رکھ سکے تو یہ شکست فتح میں بدل سکتی ہے ۔
انگریزون میںکچھ کوبیان ہیں مثلاً یہ لوگ محنتی اورایماندار یعنی دیانت دار ہوتے ہیں۔ ایمان ہو نہ ہو دیانت دارہوتے ہیں۔ اپنے لوگوں اور قوم سے مخلص ہوتے ہیں۔قوانین اور اصولوں کے سخت ہوتے ہیں ا ور ان کی پابندی کرتے بھی ہیں اور کرواتے بھی ہیں۔ یہ قوم پرست ہوتے ہیں تاہم قبیلہ اور فرقہ نہیں دیکھتے، صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ہم وطن ہے۔ یہ تحقیق بہت کرتے ہیں۔او را س ضمن میں بال کی کھال نکالتے ہیں۔ ان میں دنیا کو تسخیر کرنے کا جذبہ ہے۔ وقت کی پابندی کرتے ہیں۔ یہ تھوڑے پر راضی نہیں ہوتے۔ لگی لپٹی بات نہیں کرتے۔ سیدھی اور صاف ، دو ٹوک بات کرتے ہیں۔ خواہ وہ ٹیڑھی کیوں نہ ہو۔ بہت چالاک ہوتے یں۔ یعنی اپنا فائدہ کرنے کے لیے کسی کا نقصان بھی کر سکتے ہیں۔ ہر چیز اور ہر کام پلاننگ سے کرتے ہیں۔ اور وقت سے پہلے آئندہ پچاس سالوں (دوسرے سالے مت سمجھیئے گا) نظر میں رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ رسم و رواج کو خاطر میں نہیں لاتے بلکہ اس سے بغاوت کر کے ایک نئی روایت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حقیقت پسند ہوتے ہیں۔ دوسر طرف ہم دیسی۔۔ مرنجانِ مرنج۔۔۔ہمارے اوصاف؟ مت پوچھئیے ۔۔ کود دیکھ لیں۔۔۔بحیثیت قوم کے ہم سہل پسند ہیں۔ جانتے ہیں ایمانداری کیا ہے مگر بیچ کی راہ نکال کر اس جذبے کو خالص نہیں رہنے دیتے۔ یہی حال دیانت کا ہے۔ بلکہ اس سے بھی برا۔ کوئی اصول وضع نہیں کرتے ۔کر لیں تو ان کی پاسداری نہیں کرتے۔ ہمارا ہر قانو دوسر فرد کے لیے ہوتا ہے کود کو اس سے ماوراء سمجھتے ہیں۔ ہم فرقہ پرست ا ور قبیل پرست ہیں اس کے لیے قومی مفاد کو بھی پیچھے ڈال سکتے ہیں۔
محنت کرتے ہیں مگر غلط سمت میں۔ ہر کام اپنے وسیع تر مفاد کے لیے کرتے ہیں۔ اس میں اگر ازخود کسی کا بھلا ہو جائے تو ہو جائے۔ تحقیق سے ہم نے یکسر ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ (ہمیں کیا ضرورت ہے دوسری اقوام جو جتی پڑی ہیں)۔ مگر ہر نئی ایجاد ہمارے پاس ہونا ضروری ہے۔ ہمارا ا سکے بغیر گزارا نہیں۔ بحثیت قوم کے ہم عیاش ہیں۔
ہمیں آرام دہ گھر گاڑی بڑی سی تنخوایہ بغیر کام کے بلکہ اور ذاتی ملیں کارخانے یا فیکٹریاں چاہیئیں۔ بہنیں بیٹیاں بیاہنے کے لیے جہیز ہمارا قومی مسئلہ ہے۔ جس نےبیشتر عوام کی کمر توڑرکھی ہے۔ بال بچوں کو لے کر دنیا کی سیر کرنا ہر متموّل پاکستانی کا خواب ہے۔ رزق جس طرح بھی کمایا ہو معافی تلافی کے لیے حج تو لازمی ہے۔ وقت کی پابندی؟ یہ کس چڑیا کا نام ہے؟ پانچ نمازیں بھی ہمیں وقت کا پابند نہیں بنا سکیں۔ ہم سیدھی اور صاف بات کم ہی کرتے ہیں۔ جبکہ حکم ہے” قولوقولاً سدیدا”۔ گھما پھرا کر بات کرتے ہیں۔ سچ کا سامنانہیں کر سکتے۔ اپنے اعمال کی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔ کوشیش کرتے ہیں کہ کوئی ملے اور ہم اپنا ملبہ ا س پہ ڈال دیں۔ خو د سے تو کیا اپنی نئی نسل سے بھی مخلص نہیں۔ ورنہ کم ازکم دودھ میں ملاوٹ نہ کرتے۔ اور ملاوٹ بھی ۔۔ اللہ کی پناہ مضر صحت خطرناک ملاوٹ ۔
بات ہو رہی تھی انگریزوں اور ہم میں فرق کی۔ تو عزیزان! ا س موازنے کے بعد ایک اورفرق ہے بھی ہے۔ جو ہمیں بخوبی رٹا ہو اہے ۔۔ ہم مومن ا ور وہ کافر۔ ہم حیا دار اور وہ بے حیا۔ کیسے؟ جبکہ ہم اللہ کو مان کر بھی ا سکی نہیں مانتے۔ اور حیا کا دعویٰ کیسا؟ہمیں تو نہ ہی خود سے حیا آتی ہے نہ خدا سے

Leave a Comment