مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

( میں ہوں ملالہ ( منور مسعود


ملالہ یوسف زئی پاکستان کی نامور اور بہادر بیٹی ہے ۔ اُس کی کتاب “ائی ایم ملالہ ” ۳۲۷ صفھات پر مشتمل ہے جسے برطانوی مصنفہ کرستینا لیمب نے ملالہ اور اُس کے والد ضیا الدین یوسف زئی کے مہیا کیے ہوئے مواد سے مرتب کر کے انگریزی زبان میں کتابی صورت دی ہے اور بعد میں اس کا نارویجین ترجمہ بھی شائع ہوا ہے لیکن ابھی تک یہ کتاب پاکستان کے اردو پڑھنے والوں کے لیے ترجمہ نہیں ہوئی ۔ شاید اس لیے کہ ہم پاکستانی منیر نیازی کی طرح ہر کام میں ہمیشہ دیر کر دینے کے عادی ہیں۔ پاکستان میں اس انداز میں دوسروں سے سوانح لکھوانا ایک باقاعدہ روایت بن گئی ہے ۔ اس نوع کی پہلی کتاب فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی کتاب ” فرینڈز ناٹ ماسٹرز ” تھی جسے اُس وقت کے وفاقی سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر نے لکھا تھا ، جو ہمایوں گوہر کے والد تھے ۔یہ وہی ہمایوں گوہر ہیں جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کی آپ بیتی مرتب کی تھی ۔
ملالہ یوسف زئی کی کہانی پاکستان کی دوسری اور تیسری نسل کی کہانی ہے ۔ یہ کہانی پاکستان کی سرسٹھ سالہ تاریخ ہے جو کسی حکمران نے کسی مورخ سے نہیں لکھوائی بلکہ اسے ایک عام پاکستانی کی کتھا کے طور پر اِسے ایک پیشہ ور مصنف نے تحریر کیاہے ۔اس کتاب کے موضوع سے کسی حد تک صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ گلوبل گائوں کے سارے لوگ ہی واقف ہیں ۔ ۲۰۱۲ میں ۹ اکتوبر کی ایک سہ پہر کو منگل کے دن طالبان کے قاتلانہ حملے کے بعد دنیا بھر میں اخبارات ، ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں میں ملالہ کے نام کو بڑی ہمدردی اور پذیرائی ملی اور چند دنوں میں وہ عالمی مشاہیر کی صف میں شامل ہو گئی ۔ جب ملالہ سر میں گولی لگنے سے حیات و موت کی کشمکش میں مبتلا تھی تو دنیا بھر کے لوگوں کی نیک تمنائیں ملالہ یوسف زئی کے ساتھ تھیں ۔
یہ کتاب ملالہ کی کہانی ہے جو ملالہ ہی کی زبانی ہے ۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں بیٹی کی پیدائش کا خوش دلی سے خیر مقدم نہیں کیا جاتا ، ملالہ نے آنکھ کھولی ۔ اس کا نام ملالہ ، ملال میں رہنے والی لڑکی کا استعارہ نہیں بلکہ یہ ایک پشتون لوک کہانی سے مستعار ہے ۔ قندھار کے مغرب میں میوند کے مقام پر ایک گڈریا تھا جس کی بیٹی ملالائی اپنے محبوب ، باپ اور بھائی کے ساتھ مل کر اپنے ملک پر برطانوی تسلط کے خلاف میدانِ جنگ میں اتری اور جنگ کا پرچم تھام کر بہادر جنگجوئوں کی ہمت بندھاتی رہی ۔ پشاور کے شاعر رحمت شاہ سائل نے میوند کی ملالائی پر نظم لکھی تھے جو ملالہ نے اپنے بچپن میں اپنے والد ضیاالدین سے بار ہا رسنی تھی اور پھر وہ بھی ملالائی کی تقلید میں اپنے وطن سوات پر طالبان کے تسلط کے خلاف اپنے والد کے دوش بدوش جہالت کے خلاف جنگ کی کماندر بن کر بڑی بے جگری سے لڑتی رہی ۔ ایک ٹیچر اور سکول کے منتظم ضیاالدین یوسف زئی کی بیٹی ملالہ کے پاس انگریزی ، اردو اور پشتو ادب اور زبان کی کتابوں کی فراوانی تھی اور اُسے مطالعے کا شوق جنون کی حد تک تھا ، مگر طالبان کی شریعت میں لڑکیوں کی تعلیم ممنوع تھی ۔ صوفی محمد کے داماد ملا فضل اللہ نے جو طالبان کا رہنما تھا ، سوات میں حکومت کی رٹ ختم کر کے طالبان راج قائم کردیا تھا ۔ طالبان راج اسلام کے نام پر بد ترین سیاسی اور معاشرتی نظام تھا جس میں عورتوں اور لڑکیوں سے زندگی کاحق چھین کر اُنہیں خانگی جیلوں میں بند کردیا گیا تھا لیکن ملالہ نے اپنے والد کی مدد سے اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا جس کی پاداش میں پستول کی گولیاں ۔ شاید اُس کی کھوپڑی میں اُتار دی گئیں ۔ کتاب میں طالبانی دورِ استبداد کی جو روداد بیان کی گئی ہے وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے ۔ اس کہانی کو بیان کرتے ہوئے وہ دبے لہجے مین یہ شکایت بھی کرتی ہے کہ بڑے صوبوں کے صاحبِ اختیار لوگ چھوٹے صوبوں کا حق چھین لیتے ہیں ۔ ملالہ کہتی ہیں :
The most important jobs in the army, bureaucracy and government are all taken by Punjabis because they come from the biggest and powerful province. Page 45.
اس طرح کے خیالات سوات کے عام آدمی میں احساسِ محرومی پیدا کر رہے تھے اور بعض لوگ یہ بھی سوچتے تھے کہ ریاست کا پاکستان سے الحاق درست اور مفید تھا یانہیں تھا ۔ ریاست ملا فضل اللہ کے پنجہ ئ استبداد میں تھی اور وہ اپنے ایف ایم ریڈیو چینل کے ذریعے کچہری لگا کر فیصلے سناتا اور لوگوں کو دھمکاتا اور سزا سناتا تھا ۔ عورتوں کو سرِ عام کوڑوں کی سزائیں دی جاتی تھیں ۔ لڑکیوں کے سکول بند کرنے کے احکامات جاری کیے جاتے تھے ۔ فوج اگرچہ ریاست میں حکومت کی رٹ قائم ہونے کا عندیہ دیتی لیکن طالبان بدستور اپنے ایجنڈے پر کام کر رہے تھے ۔ فوج کے نزدیک امن کا مطلب یہ تھا کہ طالبان فوج سے براہِ راست مزاحم نہ ہوں مگر لوگوں کے سااتھ جو چاہیں کریں ۔
وادی ء سوات دکھ درد کی وادی میں تبدیل ہو چکی تھی ۔ زلزلے ، طالبان اور فوجی کاروائی نے اوپر تلے ریاست کے لوگوں کی زندگی کا سکھ چین چھین لیا تھا مگر تعلیمی محاذ پر ملالہ اور اُس کے والد کی جنگ جاری تھی ۔ فوجی کاروائی کے دوران وادی کے لوگوں کو تین مہینے تک کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر مہاجر ہونا پڑا ۔ ان تین مہینوں میں ملالہ کے والد کا سکول بند رہا ۔ فیسیں وصول نہ ہوئیں اور اساتذہ کو تنخواہ نہ مل سکی ۔ چونکہ یہ جبری تعطیلات فوجی کاروائی کی وجہ سے تھیں اس لیے فوج نے ملالہ کے والد کو اس کا ہرجانہ ادا کیا تاکہ وہ اساتذہ کو تین ماہ کی تنخواہ دے سکے۔ میجر جنرل اطہر عباس کے توسل سے ایک خطیر رقم کا چیک سکول کے اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھجوایا گیا جس سے ان جبری چھٹیوں کی تلافی ہو گئی ، لیکن ملا فضل اللہ اب بھی اپنے منصب پر فائز ہے ، بلکہ پہلے سے بھی زیادہ کھل کر کھیل رہا ہے اور ستم تو یہ ہے کہ اسے گرفتار کر کے کیفرِ کردار تک نہیں پہنچایا جا سکا۔
کتاب مین پشتون کلچر کا پورا احاطہ کیا گیا ہے اور پشتون طرزِ زندگی کو واضح تفصل سے بیان کیا گیا ہے جو بہت معلومات افزا اور دل چسپ ہے ۔کتاب پڑھتےہوئے احساس ہوتا ہے کہ ملالہ کو کہانی کہنے کا ہنر آتا ہے ۔ وہ بڑی زیرکی سے لوک شاعری کو برتتی ہے جو اس کے ذہنِ رسا کی گواہی ہے ۔اس نے سولہ سال کی عمر میں نیویارک مین اقوامِ متحدہ میں تقریر کی ۔دنیا کے بڑے لیڈروں سے ملی اور اپنے دل میں بے نظیر بھٹو کا امیج لیے لڑکیوں کے لیےتعلیمی ترقی کے منصوبے کو آگے بڑھا رہی ہے ۔ جب وہ برمنگھم کے ہسپتال میں تھی توبختاور زرداری نے اپنی ماں کی دو شالیں اُسے تحفے کے طور پر بھیجیں ، جن کا ذکر ملالہ نے بڑی عقیدت سے کیا ہے ۔ آصف علی زرداری نے بطور صدر ملالہ کی پوری تیمار داری کی ، برمنگھم کے ہسپتال کا بل حکومت نے ادا کیا اور آصف زرداری اپنی بیٹی کے ہمراہ ملالہ سے ملنے برمنگھم بھی گئے جسے ملالہ اپنا اعزاز سمجھتی ہے ۔ لیکن اُسے گلہ ہے کہ اداروں کو جس طرح اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے تھی وہ نہیں کر پائے اور لوگ نہیں جانتے کہ حکومت کی رٹ کے باوجود ملک دہشت گردوں کا نشانہ کیوں ہے ۔
ملالہ کا دکھ یہ ہے کہ اُس کے ملک میں اکیاون لاکھ بچے پرائمری تعلیم سے محروم ہیں جبکہ آئین کی رو سے تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے ۔ ملک میں پانچ کروڑ بالغ شہری پڑھنا لکھنا نہیں جانتے جن میں دو تہائی عورتیں ہیں اور ملالہ کی اپنی ماں اُن میں سے ایک ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ فوج کے پہرے کے باوجود لڑکیاں بدستور قتل کی جارہی ہیں اور سکول جلائے جا رہے ہیں ۔
ملالہ کہتی ہیں کہ اُس نے ایک بار اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اُس کا قد تھوڑا سا بڑھ جائے ، چند انچ اور اونچی ہو جائوں ۔ وہ دعا تو پوری نہیں ہوئی مگر اللہ نے اُسے آسمان کی بلندی عطا کر دی ہے ۔ اتنی بلندی کہ وہ اپنی پیمائش نہیں کر پا رہی ۔
ملالہ کہتی ہیں ، ” میں نے منت مانی تھی کہ اگر میرا قد بڑھ گیا تو میں شکرنے کے طور پر سو نفل اداکروں گی جو میں نے ادا کیے ہیں ۔ مجھے اپنے رب سے بڑی محبت ہے میں اس کی شکر گزار ہوں اور اس سے دعائوں میں محوِ کلام رہتی ہوں ۔ میرا قد اونچا کرنے کے ساتھ اللہ نے مجھ پر ذمہ داری بھی عائد کر دی ہے ۔ کہ میں اپنے گھر، اپنی گلیوں ، اپنی بستیوں اور صرف اپنے ملک ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں امن قائم کرنے کے لیے کام کروں ۔ میرا خواب یہ ہے کہ دنیا کی ہر بچی زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو ۔ ہر چہرے پر خوش حالی کی مسکراہٹ ہو ۔ میں ملالہ ہوں ۔ میری دنیا بدل گئی ہے مگر میں جوں کی توں ہوں ۔” کتاب میں ان سارے اعزازات کا ذکر ہے جو ملالہ کو ملے ہیں ۔ اور اب دسمبر میں اوسلو کا نوبل انسٹی ٹیوٹ اس کا منتظر ہے ، جہاں وہ تعلیم کے لیے اپنا اعزاز وصول کرنے آ رہی ہے ۔ یہ اعزاز ملالہ ہی کا نہیں پورے پاکستان کا ہے ۔ملالہ ! خوش آمدید ۔ ہم سب تمہارے ہم وطن تمہارے چشم براہ ہیں ۔
یہ کتاب لٹل ،برائون اینڈ کمپنی نیویارک ، بوسٹن ، لندن نے نہایت سلیقے اور نفاست سے چھاپی ہے اور اس کی قیمت ۲۶ ڈالر ہے

 

Leave a Comment