انسان میں کچھ جذبات فطری طور پر پائے جاتے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ سماج ان جزبات کی تعمیر و تشکیل اور پرورش کرتا ہے دنیا میں سماج می جتنی شکلیں ہیں ان میں جتنا فرق ہے جزبات میں بھی کم و بیش اتنا ہی فرق ہے لیکن اپنائیت کا جزبہ کسی نہ کسی صورت میں ہر سماج میں موجود ہے اپنائیت کے جزبے کی پرورش اگر ایک تحریک کی طرح کی جائے تو وہ تعصب کے دائرے میں چلی جاتی ہے اور پھر تعصب انسانوں میں ایک تفریق کا سبب بن جاتا ہے ،اگر غور سے دیکھیں تو اپنائیت کی بہت سی شکلیں ہیں ، زبان کی اپنائیت ، نسل کی اپنائیت، رنگ کی اپنائیت قوم ملک اور رشتوں کی اپنائیت ، مذہب یا عقیدے کی اپنئیت صوبے یا علاقے کی اپنائیت وغیرہ ان سب اپنائیتوں کا اگر زور و شور سے پرچار کیا جائے تو اس کے ردِ عمل میں غیریت اور اجنبیت اسی زور شور سے سامنے آئے گی ہم یہاں مثال کے طور پر ایک اپنائیت کا ذکر کرتے ہیں وہ ہے زبان کی اپنائیت دنیا میں اور ہر ملک میں مختلف زبانیں بولنے والے افراد موجود ہیں اگر یہ سب گروہ اپنی زبان کے بارے میں تحریک چلائیں تو اس کا حق دوسروں کو بھی ہے اس طرح ایک ٹکرائو جنم لے گا اور ایک تنازع کھڑا ہو جائے گا لہذٰا زبان کو اگر ایک میڈیم قرار دیا جائے اور اظہار کا ایک آلہ تصور کیا جائے جو حقیقت میں ہے تو یہ لسانی جزبے کی تہزیب ہو گی اور زبان کی کار گزاری کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور کوئی تنازع کھڑا نہیں ہو گا عصرِحاضر کے علوم کا اظہار جس بھی زبان میں ہو رہا ہے اس کے تراجم اپنی زبانوں میں کئے جائیں اور آنے والی نسل کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں جو زبانیں یہ صلاحیت رکھتی ہیں کہ جدید علوم کا اظہار ان میں ہو سکتا ہے تو ہونا چاہئے لیکن زبانوں کا متعصبانہ پرچار سوائے نفرت کے اور کچھ بھی نہیں ہے فرض کریں ایک جاب کے انٹرویو لینے والے کی زبان امیدواروں پر اثر انداز ہو تو وہاں میرٹ کا قتل ہو گا یہ بات سمجھنے کی ہے کہ زبانوں کی اہمیت اس کے بولنے والوں کے تناسب سے جڑی ہوئی ہے کسی زبان کا دائرہ بڑا ہے اور کسی کا چھوٹا سنسکرت اس لئے معدوم ہو گئی کہ اس کے بولنے والے نہیں ہیں ہمارے ملک کے صوبوں میں جو زبانیں بولی جاتی ہیں ان کے ساتھ ساتھ ہر صوبے کے لوگ اردو کوبھی سمجھتے اور بولتے لکھتے ہیں زبانیں تو ایک دوسرے کے الفاظ لے اور دے رہی ہیں پوری دنیا میں ایک اجتماعی تفہیم جنم لے رہی ہے لیکن ہمارے ہاں زبانے بولنے والے لسانی تعصب کا شکار ہیں یہ رویہ لسانی تعصب بھی ایک فرقہ واریت ہی کی شکل ہے لسانیات کو اب جدید تحقیق کی روشنی میں اس طرح سمجھا جا رہا ہے کہ اس کی ساخت اور اس کے سماجی عمل تعامل کے حوالوں سے دیکھیں تو موجودہ دور میں لسانی تعصب کی کوئی گنجائش نہیں رہتیحیح نہیں ہےلسانی تعصب بھی ایک فرقہ واریت ہی کی شکل ہے لسانیات کو اب جدید تحقیق کی روشنی میں اس طرح سمجھا جا رہا ہے کہ اس کی ساخت اور اس کے سماجی عمل تعامل کے حوالوں سے دیکھیں تو موجودہ دور میں لسانی تعصب کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اس وقت اردو ہمارے پورے ملک میں بولی اور سمجھی جا رہی ہے اس لئے اردو کے نفاذ کے فیصلے کو خوش آئیند قرار دینا چاہئے اور اس سے تعاون کرنا چاہئے