نظم نظمیہ مشاعرہ 14 جون 2015

کہانیاں ،،،،،،،،،،،،،، ناہید اختر


وقت کے کچرا دان سے
کاغذ چنتے بچوں کی طرح
ہم سارادن کہانیاں چنتے رہتے ہیں
وقت کے کچرا دان سے کبھی کبھار تو
سوکھی ڈبل روٹی جیسی
کوئی نیم باسی کہانی مل جاتی ہے
جو ہماری تخلیقی بھوک کو کچھ لمحہ کی آسودگی دے جاتی ہے
گھر کے دروازے سے نکلتے ہی
گلی کا پہلاموڑ مرتے ہی
کہانیوں سے سابقہ پڑنے لگتا ہے
محلہ بھی کہانی گھر ہوتا ہے
کہانیاں دائیں بائیں کی کھڑکیوں سے جھانکنے لگتی ہیں
کبھی کسی آسودہ چہرے پر پھیلی مسکراہٹ
تو کبھی
کسی اجنبی کے ہونٹوں سے پھسلتا
مصلحت آمیز تبسم
یہ سب کہانیاں ہی تو ہیں
کچھ کہانیاں
راستے میں پڑنے والے قبرستان میں دفن ہیں
لاتعداد دوستوں سے یکساں محبت اور رغبت کا دعویٰ بھی تو ایک کہانی ہے
بچوں کی محبت ۔گھر کے سکھ اور سماج کی عزت پر قربان ہونے والی عورت
کولہو کے بیل کی طرح
نوکری اور کاروبار کے نام پر
رہٹ میں جتا ہوا مرد
جو خدائی صفات نہ رکھنے کے باوجود
عورت سے سجدہ چاہتا ہے
اعداد و شمار کے گورکھ دھندے
روایتوں کے بھینیٹ چڑھتے انسان
معجزوں کی منتظر قسمت
غربت کی مٹھیوں میں دم سادھے
ناتمام خواہشیں
کتنی ہی کہانیوں کو جنم دیتی ہیں
دست قدرت کا غآزوں کی تہ در تہ میں چھپا ہوا حسن
اسٹیج پر بلی کی چال چلتے مرد و زن
سب کہانیاں
مذہب کی شمشان گھاٹوں پر سلگتے عقیدے
اور قربان ہوتی انسانیت
زبان ،رنگ ،نسل قومیت اور مذہب کی تیز نوکیلی بدگمان پرکار سے بنائے گئے دائروں میں قید تنہائیاں
سب کہانیاں ہیں
جسم سے بوند بوند خون نچوڑتی
تشخیص کے پل صراط سے گزارتی
موت کا خوف بانٹتی
مسیحائی بھی ایک کہانی ہے
وقت کے کچرا دان سے
تم کتنی کہانیاں چنو گے ؟

Leave a Comment