تمہیں یاد ہے ۔۔۔۔!
میں نے تم سے ایک دن کہا تھا
مجھے اسٹج ڈرامے بہت اچھے لگتے ہیں
تم نے وعدہ کیا ۔۔ کاموں سے فرصت پاتے ہی
ایک روز ضرور شاندار سا کھیل دکھانے لے چلو گے
اور ۔۔ پھر ایک دن ۔۔۔ تم ۔۔ مجھے وہاںلے کر گئے
میں حیران سی ملائم سبز گھاس کے قالین پر کھڑی تھی
شرمیلی خوشبودار ہواؤں نے
آگے بڑھ کر ہم دونوں کو خوش آمدید کہا
تھوڑی سی دور ۔۔۔ اور ۔۔تاحد نگاہ
لہر در لہرپرسکون سا سمندر خود میں مگن تھا
بادلوں کی اوٹ سے
خوشیاں بکھیرتا سورج ہمارے سروں پرچمک رہا تھا
پھر ۔۔۔ ہمارے پہنچتے ہی ۔۔۔
پانیوں کے نیلے اسٹیج پر رنگوں نے رقص شروع کر دیا
پہلے قرمزی پھر نارنجی اور پھر سرخ رنگوں نے اپنا اپنا فن دکھایا
ہم دونوں سفید ریت کے ساحل پر
ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اس کے ساتھ ساتھ چل جا رہے تھے
ہمارے پیروں کے نشان ہم رکابی کے گواہ ہو رہے تھے
مجھے یاد ہے ۔۔۔
ہم دونوں خاموش تھے پر ایک دوسرے کو سن سکتے تھے
برسوں کے خاموش نین نقش
وقت سے بے نیازہو کر ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے
تمہیں یاد ہے ۔۔۔۔
اس دن ہماری بھوک بھی خوشی سے ناچ اٹھی تھی
دو چکن برگر ۔۔ اور ڈھیر سارے ہاٹ چپس
سفید گتے کے دو مگوں میں بھاپ اڑاتی کافی
خوش سخن خاموش سے کئی لمحے محبتوں کی پناہ میں تھے
لگتا تھا جیسےوقت یونہی گزر جائے گا ۔۔۔ پر ایسا نہ ہوا
سورج ۔۔ جو صبح سے ہم سب کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا
تھک چکا تھا شاید ۔۔ جوواپسی کے سفر کی اجازت چاہ رہا تھا
سورج کے جانے کا سنتے ہی ۔۔
پر وقار، خوش خرام ہوائیں اداس اور سرد ہوگئیں
دل گرفتہ سی لہریں ۔۔۔
سورج کو گلے لگا کرباری باری خدا حافظ کہہ رہیں تھیں
دھیرے دھیرے ساری بنفشی روشنیاں معدوم ہو نے لگیں
پھر ۔۔ سمندر کے مغربی سمت چلتے چلتے
تھکا تھکا سا ، اداس سورج ۔۔۔ نظروں سے اوجھل ہو گیا
پانیوں کے نیلے اسٹیج پر
کہرے کا ملگجا پردہ گر گیا ۔۔۔ ۔۔۔ ہر منظر چھپ گیا
چلیں جانم ۔۔۔
تم نے مجھے دھیرے سے پکارا
اور ۔۔۔ بے خودی میں خود میں یوں چھپا لیا
جیسے ابھی ابھی
سمندر نے سورج کو اپنی آغوش میں لے لیا تھا
میرے محبوب ۔۔ یہ کیسا ادراک ہے
تم محبت کا بے کنار سمندر ہو اور میں تمہارا سورج ہوں
ہماری کوئی سرحد نہیں ۔۔۔ ہماری اپنی کوئی پہچان نہیں
ہم جہاں کہیں رہیں ۔۔ کسی بھی منظر میں جا بسیں
ہمیں ہر روزایک دوسرے سے ہی جنم لینا ہے
مجھے یاد ہے
واپسی پر تم نے مجھ سے پوچھا تھا
سنو !
کیا تم نے
اتنا شاندار اور عظیم کھیل پہلے کبھی دیکھا تھا
میں نے تشکر سے تمہیں دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں
پانیوں کے نیلے اسٹیج پر
کہرے کا ملگجا پردہ اب بھی گرا ہوا تھا پر ہر منظر روشن تھا