نظم نظمیہ مشاعرہ 14 جون 2015

ڈراپ سین ،،،،،،،،،،،شہناز پروین سحر

میں اور وہ
دونو ں ہی اک ڈرامے کے کردار تھے
وہ ڈرامہ
جو سوچا نہ سمجھا گیا
جیسے کچھ الٹی سیدھی لکیریں بناتے ہو ئے
ایک تصویر سی
آپ ہی بن گئی
اور مبہم لکیروں کی دہلیز پر
ایک مفہوم آ کر کھڑا ہو گیا
کیسے پردہ اٹھا
وہ بھی میری طرح کچھ نہیں جانتا
ایک ہیرو اور اک ہیروئن کی طرح رول کرنا تھا دونوں کو
لیکن خدا جانے کیوں کر ہوا
وو ولن بن گیا
خود میرا حال بھی ویمپ جیسا ہی تھا
الٹی سیدھی لکیروں میں تصویر گم ہو گئی
وہ جو مفہوم تھا
الجھے الجھے سوالوں کی دہلیز سے بھی پرے جا چھپا
جیسے کچھ بھی نہ تھا
چند بچوں کی آه و بکا کے سوا

Leave a Comment