سبق علم العروض

علم العروض(4) جمیل الرحمن

 02-04-2011

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک اچھے شاعر کے لئے ازبس ضروری ہے کہ وہ حروف کے پس منظر اور ان کے باہمی اتصال سے جنم لینے والے لفظ میں موجود معنوی جوہر سے خوب واقف ہو تاکہ وہ اپنے شعر میں لفظ کا صحیح استعمال کر سکے ۔اگرچہ حروف کا پس منظر اور الفاظ کا جوہر شاعری کے باب میں ایک الگ اور مستقل موضوع ہونا چاہئے۔مگر اردو زبان میں بد قسمتی سے اب تک اسے سیکھنے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ،دوسرے علم التحریر کی اہمیت کو در خور اعتنا سمجھ کر اس پر لکھا بھی نہیں گیا۔میں کوشش کروں گا کہ گاہے بگاہے مناسب مراحل پر اس پر گفتگو جاری رکھوں۔تاکہ عروض کے ساتھ ساتھ آپ اس علم سے بھی استفادہ کر سکیں ۔

یاد رکھئے علم التحریر میں حروف مختلف تہذیبی ،فکری اور جذباتی حالتوں کی جزوی نمائیندگی کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر ہم حرف ۔ح۔کی سیریز کو دیکھتے ہیں ۔جو ۔ج،چ،ح اور خ ۔کے سیٹ پر مشتمل ہے۔

ح۔۔۔ایک طاقتور ،توانا اور جوان اونٹ کی علامت۔۔اور ان الفاظ میں زیادہ استعمال ہوتا ہے ۔جو فکری یا جذباتی نمائیندگی کرنے کے حامل الفاظ ہوں۔

ج۔۔۔۔ایک گابھن اونٹنی کی علامت ہے۔۔۔وقار،نفاست اور عظمت سے مملو الفاظ میں زیادہ استعمال ہوتا ہے یا جن کا تعلق کسی بھی تخلیقی حیثیت سے ہو۔

خ۔ایک بار بردار اونٹ کی علامت ہے۔۔۔۔۔ زیادہ ترزندگی کے مسائل سے تعلق رکھنے والی کیفیتوں اور جذباتی و فکری کشمکش سے مملو الفاظ میں پایا جاتا ہے۔

چ۔۔۔۔تین نقطے ۔۔ اونٹ کے پُرشکم ،دو آنکھوں اور ایک منہ کے نمائیندہ ہیں ۔یعنی ان الفاظ سے زیادہ تعلق رکھتا ہے جو مطالعہ،مشاہدہ اور تجربے اور انتخاب کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ حرف فارسی سے اردو میں شامل ہوا ہے۔عربی میں چ نہیں ہوتا۔

آپ اگر کسی لفظ کی ساخت کو غور سے دیکھین گے تو آپ کے مشاہدے میں یہ بات آئے گی کہ جب یہ حروف دوسرے حروف کے ساتھ مل کر کوئی لفظ بنائیں گے ۔ تو ان حروف کے پس منظر کی معنویت کی چھاپ آپ کو اس لفظ پر ضرور دکھائی دے گی۔ اردو زبان چونکہ مختلف تہذیبوں کی مشترکہ نمائیندہ ہے۔لہذا ظاہر ہے کہ اس کے حروف تہجی بھی مختلف تہذیبوں اور ان کے جوہری اثرات کے نمائیندہ بن کر ان تہذیبوں کا مجموعی فکری جوہر سمیٹے ہوئے ہیں۔

بہر حال مندرجہ بالا مضمون ایک جملہ ء معترضہ کے طور پر آپ کی دلچسپی کو مہمیز لگانے کے لئے بیان کیا گیا ہے ۔علم العروض سے اس کا تعلق نہیں ۔

گزشتہ سبق میں ہم نے ۔سبب ۔اور اس کی اقسام پر گفتگو کی تھی ۔آج ہم ۔وتد۔ پر بات کریں گے۔

وتد۔(و ت د۔۔۔۔واؤ پر زبر،ت پر زبر ،دال پر جزم)۔تین حروف کے باہمی اتصال سے بننے والے لفظ یا اس کے جزو کو کہتے ہیں۔

سبب کی جمع ۔اسباب اور وتد کی جمع اوتاد ہے ۔۔وتد کی تین اقسام ہیں

۱۔وتد مجموع۔۔مثال ۔نظر۔ن پر زبر ،ظ پر زبر،رے پر جزم۔۔۔۔۔غور کریں پہلے دونوں حروف پر زبر ہے اور تیسرا ساکن ہے

۲۔وتد مفروق۔۔۔اس میں پہلے حرف پر زبر ،دوسرے پر جزم اور تیسرا متحرک ہوتا ہے۔ مگرایسا کوئی لفظ اردو زبان میں موجود نہیں ۔جو ساکن سے شروع ہو یا متحرک لفظ پر ختم ہو ۔لہذا وتد مفروق کو سمجھنے کے لئے بھی وہی سبب ثقیل والے طریق کو اختیار کی جا تا ہے کہ دو الفاظ کے درمیان کسرہ ء اضافت یا واؤ جسے واؤ عطف کہتے ہیں لگا دیا جاتا ہے ۔امثال۔۔شوقِ فضول۔۔شین پر زبر،واؤ پر جزم ،ق کے نیچے زیر لگا کر اسے متحرک کر لیا تو اسے اب شوقے پڑھا جائے گا۔اسی طرح ۔رقصِ بسمل ۔ہو گا۔۔اس پر اعراب لگا کر آپ دکھائیں کہ کہاں وتد مفروق ہے

ناز و انداز۔۔۔۔ن پر زبر،الف پر جزم،زے واؤ عطف کے ساتھ مل کر متحرک ہو گئی۔۔ایسے۔۔۔نازُ۔۔واؤ عطف کی جگہ اس پر پیش آگئی۔۔۔جان و مال کی وضاحت آپ کریں۔۔۔۔اور یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ وتد مفروق کبھی مصرع کے آخر میں نہیں آسکتا۔

وتد مو قوف۔۔نذر جیسے تین حرفی الفاظ،جن میں بظاہر پہلا حرف متحرک اور آخری دو ساکن ہوتے ہیں ۔اور کلاسیکی وتد نہیں کہلا سکتے۔ان کے لئے وتد مو قوف کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔کیونکہ وتد مفروق تو آپ ترکیب دے کر بنا لیتے ہیں لیکن ان مجرد الفاظ کو بھی کوئی نام دیا جانا چاہئے۔اسی لئے انہیں

موجودہ دور میں عروض کے ایک ماہر نے وتد موقوف کا نام دیا ہے جو رائج ہو رہا ہے اور طالب علم کو تقسیم یاد رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

Leave a Comment