دنیا کو گلوبل ولیج میں تبدیل ہوئے بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا ۔ اخبارات اور ریڈیو سے خبریں مل جایا کرتی تھیں، لیکن جس فراوانی سے پہلے پہل سی این این یہ انقلاب لیکر آیا، انسانی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا ۔ چنانچہ دنیا بھر نے نوے کی دھائی کے آغاز میں عراق، کویت اور امریکہ کے مابین ہونے والی جنگ ، آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم ، گھر بیٹھے دیکھی ۔
پھر یہ بریکنگ نیوز کی بیماری جنگل کی آگ کی طرح ساری دنیا میں پھیل گئی ۔ یہ سلسلہ بارہ، پندرہ برس تک ٹیلی وژن اور خبروں تک ہی محدود رہا ۔ دوسری طرف انٹرنیٹ کا طوفان برپا ہوا جس سے دنیا میں فاصلے بالکل ہی سمٹ کر رہ گئے ۔
ہارورڈ بزنس اسکول کے ایک طالب علم مارک زکربرگ نے اپنے دوستوں سے رابطہ کیلئے ایک سوشل نیٹ ورک شروع کیا، جو رفتہ رفتہ بوسٹن کے دیگر کالجوں تک پھیلا۔ اس کی افادیت بڑھتی گئی اور دو ہزار چارمیں وجود میں آنے والی فیس بک کا دائرہ کار بڑھتے بڑھتے امریکہ اور پھر ساری دنیا میں پھیل گیا ۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی کُل آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ، تقریباً پندرہ سو ملین لوگ فیس بک استعمال کرتے ہیں ۔
ہر کلچر، ہر تہذیب اور ہر علاقے کے لوگوں کے روابط دنیا بھر میں بسنے والے اپنے اپنےلوگوں سے ہیں ۔ لاکھوں کی تعداد میں کمیونیٹیز ہیں جو فیس بک کی غیر مرئی دنیا کا حصہ ہیں ۔ ایسی ہی ایک دنیا پاکستان کے باسیوں کی بھی ہے ۔ یہ پاکستانی خواتین و حضرات پاکستان کے علاوہ کینیڈا و امریکہ سے لیکر افریقہ، چین اور آسٹریلیا تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ کہیں میوزک کے دلدادہ جمع ہیں تو کہیں ادب کے شائقین نے محفلیں جمائی ہوئی ہیں ۔ کہیں سیاسی گروہ بندیاں ہیں تو کہیں مذہبی ۔ دن رات کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو چوبیس گھنٹے جاری و ساری ہے ۔
شعوری اور علمی سطح پر ہر قوم و ملک کا ارتقا و مقام مختلف ہے ۔ یورپ، امریکہ وکینیڈا ، آسٹریلیا و نیوزی لینڈ میں عوامی سطح پر علم و تہذیب جس منزل پر ہے اکثر ایشیائی اور افریقی ممالک و اقوام میں اس کا معیار کافی حد تک کم ہے ۔
ہم اپنی تہذیب کا اگر ذکر کریں تو ابھی کل کی بات ہے کہ خواتین کی تصاویر یا ویڈیوز اپنے بہت قریبی حلقوں اور رشتہ داروں تک ہی محدود رکھی جاتی تھیں ۔ مذہبی حلقوں کی اپنی ایک الگ دنیا تھی ۔ یہی حال موسیقی اور ادب کے شیدائیوں کا تھا ۔ سوشل میڈیا نے یہ سارے فاصلے یکلخت مٹا دئیے ہیں ۔ اس سے ایک ایسا سماجی ایکسپلوژن ہوا ہے جس سے نمٹنے کیلئے ہم شعوری یا علمی سطح پر تیار نہیں ہیں ۔
ایسے مسائل اور ایسے سوالات سامنے آگئے ہیں کہ جن کا جواب ہم سے بن نہیں پارہا ۔ مثلاً ایک خاتون جس نے کبھی اپنے گھر سے، یا محلے یا گاؤں سے قدم باہر نہیں نکالا تھا ، اس کی تصویر پر اسی کا ایک اجنبی ہم وطن، دنیا کے کسی اور خطہ میں بیٹھا پسندیدگی کا اظہار کرتا ہے تو وہ ششدر رہ جاتی ہے ۔ خود اس مرد کو بھی اندازہ نہیں ہے کہ شائستگی کے کس اصول کے تحت اسے اس تصویر پر کامنٹ کرنا ہے ۔ یا یہ کہ کامنٹ کرنا بھی ہے یا نہیں ۔ یہ سب کچھ ہمارے لوگوں کیلئے بہت نیا ہے ۔ مجبوراً اس خلا کو پُر کرنے کیلئے ماشاٗ اللہ اور سبحان اللہ اور درازیٗ عمر کی دعائیں لکھی جاتی ہیں ۔ دوسری طرف سے بھی یہی کچھ ہوتا ہے ۔
سوشل میڈیا کے آجانے سے ایک مسٗلہ یہ بھی ہوا کہ معاشرے کے وہ ڈھکے چھپے فکری یا مذہبی حلقے ، جو ایک دوسرے سے کسی نہ کسی سطح پر واقف ہونے کے باوجود، بڑی حد تک اپنے اپنے دائروں میں متحرک اورڈائیرکٹ تصادم سے دور تھے ۔ یکایک سامے آگئے ہیں اور مستقل تصادم کا شکار ہیں ۔ آزادیٗ خیال اور آزادیٗ اظہار کے تمام راستے مسدود ہیں ۔ پرسنل پرائیویسی جو انسان کا بنیادی حق ہے، ہمارے فیس بُکی حلقوں میں اس کا احترام تو ایک طرف ،اکثر و بیشتر لوگوں کو اس کا صحیح ادراک تک نہیں۔
قوم کے جوانوں میں تعلیم و تربیت کا اتنا فقدان ہے کہ بے چارے ان باکس میسیجنگ کو بھی صحیح طور پر ہینڈل نہیں کرپاتے ۔ اسکول کالج کے نصابوں میں ابھی پچھلی صدیوں کی فتوحات زیرِ بحث ہیں ۔ سوشل میڈیا کی اخلاقیات اوراس گلوبل ولیج میں
Effective
communication skills
انہیں کون سکھائے گا ؟