مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

( جذبیؔ ۔ ترقی پسندی کی صحت مند توسیع (اصغر شمیم


ہم کو سمجھ نہ پا ؤگے اے ناقد انِ فن
روزِ ازل سے عقدۂ مشکل رہے ہیں ہم
جذبیؔ نے اپنی زندگی میں بہت کم لکھا مگر جو لکھا وہ بہت ٹھوس اور مستحکم لکھا۔ بقول جذبیؔ :
’’میں ہنگامی ادب کا کچھ زیادہ قائل نہیں ہوں یہ کیسے ممکن ہے کہ اِدھر ایک واقعہ ہو اور اُدھر
ایک نظم تیار ہو گئی یہ تو اُس وقت ممکن ہے کہ جب ذہن پہلے سے اُس واقعے کے لئے تیار ہو۔
تجربہ تخلیق کی منزل تک پہنچنے کے لیے صرف تحلیل و تجزیہ کے مراحل ہی سے نہیں گذرتا بلکہ
شاعر کے مزاج سے بھی ہم آہنگ ہوتا ہے ۔ اسی کو ہضم کرنا، رچانا بسانا کہتے ہیں۔ اس کے
لئے کافی مدت درکار ہوتی ہے۔ جو حضرات ہضم کرنے اور رچانے بسانے کو غیر ضروری
سمجھتے ہیں، اُن کے یہاں گہرائی و گیرائی کے بجائے جذباتیت اور سطحیت کا پیدا ہونا
ضروری ہے۔۔‘‘ (فروزاں)
ترقی پسند شعراء میں جذبیؔ کو ایک خاص مقام حا صل ہے۔ ترقی پسند شعراء میں ان کا رنگ سب سے جدا تھا۔ جذبیؔ نے جس وقت شاعرے شروع کی وہ وقت ترقی پسند تحریک کے عروج کا وقت تھا یعنی اُس وقت کے زیادہ تر شعراء و ادباء ترقی پسند تحریک سے راست یا براہِ راست طور پر جُڑے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تحریک تھوڑے ہی عرصے میں ملک کی ساری ادبی فضا پر چھا گئی۔ اس تحریک نے شعراء و ادباء کو ایک نئی راہ دکھائی اور ادب کے مقاصد کو واضح کیا۔ ترقی پسند تحریک زندگی کو ادب سے قریب لے آئی۔ اس تحریک سے جُڑے شعراء و ادباء نے زندگی کے ان مناظر کی طرف نظر دوڑائی جدھر لوگ دیکھنا اور لکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ ترقی پسند نے ادب کو عام انسانوں سے جوڑا۔ مزدوروں، کسانوں اور تمام مظلوم انسانوں کی طرف داری کی ذمہ داری اپنے کاندھے پر اٹھا کر عوام کے ساتھ مل کر عوام کی آواز میں آواز ملا کر گیت گائے۔
ترقی پسند ادب کے سلسلے میں جذبیؔ کا نظریہ ان کے ہم عصروں سے الگ تھا اور بالکل ذاتی تجربے کی روشنی میں تھا :
’’ اگر ہم واقعی اپنے آپ کو ترقی پسند کا علم بردار کہتے ہیں تو ہمارے لئے مارکسی نقطہ و نظر
پیدا کرنا نہایت ضروری ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ مارکسی کے نظریات کو رنگین یا
پُر شکوہ الفاظ میں نظم کر دیا جائے ۔ ایک شاعر کی حیثیت سے ہمارے لیے جو چیز سب
سے اہم ہے وہ زندگی یا زندگی کے تجربات ہیں۔ لیکن کوئی تجربہ اُس وقت تک موضوع
سخن نہیں بنتا جب تک اُس میں شاعر کو جذبہ کی شدت اور احساس کی تازگی کا یقین نہ ہو
جائے ۔۔۔۔اگر شاعر کے پاس کوئی اپنا نقطہ ء نظرہے تو اس کی جھلک کبھی ہلکی کبھی گہری
لیکن ہوگی ضرور۔کیوں کہ جذبات وا حساسات میں سرایت کر جانا لازمی ہے۔ یہاں ’’حل‘‘
کی وضاحت ضروری نہیں۔ انداز بیاں خود حل کی غمازی کرتا ہے۔ دریا کا بہاؤ درست ہونا
چاہئیے ۔ کشتی کشاں کشاں کنارے سے آلگے گی۔ (فروزاں۔ چند باتیں دوسرا ایڈیشن1951 )
ادب کی لطافت و کیفیت کو برقرار رکھنے کے لئے حل پیش کرنا ضروری نہیں اور نہ یہ ادب و ادیب یا شاعر کا کام ہے۔۔۔شاعر کا کام جذبات و احساسات میں سرایت کرنا ہے۔۔ اگر کسی نے شاعری میں اپنے خیالات کے اظہار کے ساتھ حل بھی پیش کیا تو گویا اس نے شاعری کی لطافت کو کثافت میں بدل دیا یا اسے کثیف بنا دیا۔
فروزاں کا مقدمہ پڑھیے اور اس صداقت سے آشنا ہو جائیے جسے بیان تو کیا ہے جذبی نے لیکن جو صد فی صد سچ پر مبنی ہے۔ شعر و ادب کے لیے ایک مربوط نظام فکر کی ضرورت ہے۔ مارکسی سے ان کی محبت اپنی جگہ لیکن مارکسزم کو جب مشرقی حوالوں سے انھوں نے دیکھا تو ’’نیا سورج‘‘لکھا 1947 کی یہ نظم۔۔۔۔ان کا سوالیہ انداز :
ترے پاس ایسی بھی کوئی کرن ہے
جو ایسے درختوں میں بھی راہ پائے
جو ٹھٹھروں ہوؤں کو جو سمٹے ہوؤں کو
حرارت بھی بخشے گلے بھی لگائے
وہ ملکی حالات سے 1947 کے بعد بھی کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ انھوں نے ہمیشہ حوصلوں کی بات کی انھوں نے اقدار کو
آج بھی ریگ بیاباں کے تپش زاروں میں
لڑ کھڑاتے ہوئے قدموں کے نشاں ملتے ہیں
آج بھی جسم اسی طرح فگار و مجروح
آج بھی قلب اسی طرح تپاں ملتے ہیں
اے ہم سفر اس کو تو منزل نہ کہو
آندھیاں اٹھتی ہیں طوفان یہاں ملتے ہیں
اُس زمانے کے شعرا ء میں علی سراد جعفری، مجاز، فیض، اختر الایمان اور جذبی عوام میں بے حد مقبول تھے۔ جذبی کی شاعری کا انداز اپنے دیگر معاصرین سے بہت مختلف تھا۔ جذبی کی شاعری میں ترقی پسند تحریک کا اثر تو تھا ہی ساتھ ہی ساتھ ان کی شاعری میں جدیدیت کے نقوش بھی واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے۔ جذبی نے جدیدیت کے مخصوص موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دی خاص طور سے انفرادیت، جدت اور بغاوت جذبی کی شاعری میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
جذبی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ ان کی غزلوں کے متعدد اشعار آج بھی زبان زد عام ہیں ۔ جیسے:
نہ آئے موت خدایا تباہ حالی میں
یہ نام ہوگا غمِ روزگار سہہ نہ سکا
مختصر یہ ہے ہماری داستانِ زندگی
اک سکونِ دل کی خاطر عمر بھر تڑپا کئے
یہی زندگی مصیبت، یہی زندگی مسرت
یہی زندگی حقیقت، یہی زندگی فسانہ
ہم نے غم کے ماروں کی محفلیں بھی دیکھی ہیں
اک غم گسار اٹھا اک غم گسار آیا
زندگی ہے تو بہر حال بسر بھی ہوگی
شام آئی ہے تو آئے کہ سحر بھی ہوگی
وہ بے نواؤں کی بستی نہ ہو کہیں اے دوست
نظر بچا کے چلے ہیں جدھر سے اہل کرم
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا، اب خواہشِ دنیا کون کرے
جذبیؔ کا عصری شعور ان کا اپنا شعری مزاج اور اس شعری مزاج سے ہم آہنگ موضوع اس نوجوان کے مقدر کے حوالے سے تھا جس نے بائیس سال کی عمر میں گھر چھوڑا یہ جانے بغیر کہ ان کی منزل کہا ں ہے۔ منزل اور مستقبل کی تلاش میں زمانے نے انھیں کافی دکھ دیے لیکن وہ حالات اور دکھوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان کے قدم کہیں لڑکھڑائے نہیں بلکہ ان حالات میں تجربات کی دنیاؤں سے گزرتے رہے یہی حالات تھے کہ جذبی کے فن نے ان کو ایک ایسا مقام عطاکیا کہ لوگوں نے دیکھا کہ حقیقت کسے کہتے ہیں اور اس کی عکاسی کیسے کی جاتی ہے۔
انصاف اور مساوات کی بات تو لوگ کرتے ہیں لیکن ان ہی دو لفظوں کے منفی رویے نے جذبی کے ذاتی تجربوں کے خزانے کو مالا مال کیا اور جذبی کے دل کو وہ نگاہ مل گئی جس نے نگاہوں کو وسعتیں دیں۔
بقول خلیل الرحمن اعظمی:
’’جذبی نے کلاسیکی سانچوں میں اپنے احساسات کی تازگی سے ایک طرح کی ندرت پیدا کرنے کی
کوشش کی ہے۔ ان کا مجموعہ کلام مختصر اور منتخب ہونے کے علاوہ ایک ہموار اسلوب بھی رکھتا ہے۔۔‘‘
جذبی کی تخلیقات کی تعداد بہت کم ہے لیکن زندگی اور زندگی کے تجربات پر انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ ان کے معاصرین میں عنقا ہے۔ معین احسن جذبی بہت کم گو شاعر تھے۔ وہ بھیڑ بھاڑ زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے جتنی پذیرائی ان کی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی۔
جیسا کہ میں نے پچھلے سطور میں عرض کیا جذبی قنوطی نہیں تھے۔ صحت مند ہواؤں کا انہوں نے استقبال کیا تھا اور اپنے شعری رویے سے صحت مند فضا تیا ر کی تھی۔ ان کی غزلیں ان کے عم عصروں سے زیادہ ممتاز و بلند تھیں۔ غزل کے معاملے میں جذبی کا قد ان کے ہم عصروں سے اونچا تھا۔
معین احسن جذبی اگر حیات سے ہوتے تو ایک صد ایک سال کے ہوتے ۔ آج جب ہر طرف صدی تقریبات کی دھوم مختلف ناموں کے حوالے سے ہے تو ہم جذبی کو بھی ایک صد ایک سال کے حوالے سے یاد کر رہے ہیں۔۔۔جذبی اپنے ہم عصروں سے کم گو تھے۔۔انہوں نے اپنے ہم عصروں سے کم کہا۔ لیکن جو کہا وہ اعتبار کی اس سر حد تک پہنچا جہاں اچھے اچھے ترقی پسند شعراء نہ پہنچ سکے۔ ترقی پسندی اور ترقی پسند تحریک جو اپنے شعری اور نثری افکار کے ذریعہ عوام کے ایک مخصوص طبقے میں مقبول ہو رہی تھی۔۔لیکن ترقی پسندی نے اپنے آپ کو کچھ مخصوص نعروں میں ایسا لپٹا کہ شاعری کھوکھلی ہونے لگی اور افسانے منصب سے گرنے لگے۔ معین احسن جذبی نے لیکن ان سے ہٹ کر الگ راہ بنائی انھوں نے کلاسیکیت سے انحراف نہیں کیا اور نہ ترقی پسندی سے منہ موڑا بلکہ ان کے آمیزہ سے جو اشعار کہے غزل ہو یا نظم اس آنچ سے محفوظ رکھا جس میں نعرہ بازی اور قنوطیت و یاسیت تھی یا پھر انقلاب زندہ باد کے حوالوں سے سرخ فوج، سر خ پرچم کے سائے تھے۔
معین احسن جذبی کا کلام آج پھر اس بات پر آمادہ کر رہا ہے کہ ان پر کھل کر گفتگو کی جائے اور ترقی پسندی کے حوالے سے ان کی شاعری کی صحت مند توسیع کا مکمل احاطہ کیا جائے۔۔۔۔!!

Leave a Comment