سائنسی علوم کا تعلق حقائق اور ادراک سے ہے۔لہذا سائنس کی بحث کا دائرہ کار صرف طبعی دنیا تک محدودہےاور حسی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
ایک سائنسدان دنیوی اشیاء کی صورت ترکیبی،اجزا،خصوصیات اور علائق کا تجزیہ کرتا ہے۔ اس کے بعد اصول منضبط کر کے کثرت سے وحد ت کی طرف آتا ہے-۔سائنس دان مظاہر فطرت کو استدلال اور ادراک کی عینک سے دیکھتا ہے۔ اس کی نظر میں دنیا صرف مختلف اشیاء کاایک مجموعہ ہےجس پر وہ تجزیہ و تقسیم کے اصول منطبق کرتا ہے،مگر اس طریقے سے دنیا کے مجموعہ ء عظیم کے بارے میں مکمل معلومات حاصل نہیں ہوتیں۔ایک دوررس انسان دنیا کے جمال اور اسرار کو بھی معلوم کرنے کی خواہش رکھتا ہے-۔جس قدر سائنس کے ذریعےدنیا کے ٹھوس حقائق کا انکشاف ہوتا ہے،اسی قدر شدت کے ساتھ اس کے پوشیدہ حسن کو معلوم کرنےکا تجسس بھی بڑھ جاتا ہے۔جب اس تلاش حسن میں نظریں کامیاب ہو جاتی ہیں تو پھر حیرت کی دنیا کا سفر شروع کرتی ہیں۔۔اسی وادیء تحیر میں شاعری کا گلستان پھوٹتاہے۔اس طرح شاعری سائنس کی معاون بھی ہے اور متضاد بھی۔
مشہور نقاد لے ہنٹ کا قول ہے کہ جہاں پر سائنس کی سرحد کا خاتمہ ہوتا ہے وہیں سے شاعری کی سرحد کا آغاز ہوتا ہے۔سائنس کی دنیا میں ادراک جبکہ شاعری کی دنیا میں جذبات کا سکہ چلتا ہے۔
اگر علم نباتات کی سائنس کے ماہر سےکسی پھول کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں تو وہ پھول کی قسم بتائے گا،اس کی پنکھڑیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرے گا اور بتائے گا کہ وہ پھول کس موسم میں کھلتا ہے اور کس قسم کی آب و ہوا اور خوراک کا ضرورت مند ہے مگر جس پھول کے بارے میں اس نے اتنی اہم باتیں بتائی ہیں ،وہ ایک شاعر کا پھول نہیں ہے- شاعر جس پھول کے بارے میں بتائے گاوہ حسن اور رنگینی کا ایک بھر پور نمونہ ہے،جس کے بارے میں معلومات ہمارے ذہن اور ادراک کو متاثر کرنے کے برعکس ہمارے دل کے جذبات کو متاثر کریں گی اور ہم اس پھول کی رعنائی اور رنگینی کی موجوں میں کھو کر مست ہو جائیں گے-
ثابت ہوا کہ سائنس کی معلومات غیر دلچسپ اور نامکمل ہوتی ہیں جبکہ شاعرانہ معلومات ہمارے جذبات و احساسات کو بیدار کرتی ہیں- میتھیو آرنلڈ نے درست کہا ہے کہ اس نے شاعری کی جن عظیم قوتوں کو محسوس کیا ہے ان کا ادراک کسی اور طریقے سے ممکن نہیں-
سائنس ہمیں ٹھوس حقائق سے روشناس کراتی ہے جبکہ شاعری ٹھوس حقائق سے بھی اوپر لے جاتی ہے جسے ہم شاعرانہ حقیقت کہتے ہیں۔سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ حقائق کیا ہیں جبکہ شاعری اس طرف رہنمائی کرتی کہ حقائق کیا ہونے چاہئیں-
شاعرانہ حقیقت کا انحصار جزبات کے خلوص پر ہے-جزبات کی بنیاد ہمیشہ سچائی پر ہونی چاہیے ورنہ شاعری کم درجے کی تخلیق ہو گی اور اس میں تصنع اور مبالغہ آرائی در آئے گی-جب شاعر کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ تیز ہوگا تو وہ اپنے جزبات کو حقائق کی روشنی میں پیش کرے گا ورنہ بناوٹ اور مبالغہ آرائی پیداہو گی اور تخلیق صداقت دور ہٹ جائے گی اور ان نیچرل شاعری وجود میں آئے گی جا کا ذکر اور تفصیل مولانا حالی کے ،،مقدمہ شعر و شاعری،، میں موجود ہے