مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

تلاش وجود شاہد جمیل احمد ، گوجرانوالہ ، پاکستان۔

ابتدائے آفرینش ہی سے تصورِ تلاشِ وجود انسانی عُلُومِ سائنسی ، نفسیاتی ، ما بعد الطبیعاتی ، فلسفیاتی ، اساطیری ، روحانیاتی اور فنون سنگ تراشی ، نقش نگاری ، موسیقی ، شاعری و ادا کاری میں ضروری اکائی نہیں بلکہ مکمل لازمے کے طور پر موجود و مطلُوب رہا ہے ۔ صحفِ سماوی کے ماننے والوں کے تصورِ آدم و دعویِٰ اٹل بابت عمرِ دنیا اور قدیمی روایتی دیوی دیوتاؤں اور شیطنت OKIA اورTOIAکے مضبوط تصورات کے باوجود ژان لمارک کے ابتدائی نظریہ ارتقاء میں سادہ عضویات کا غیر نامیاتی مادے سے ظُہور و ارتقاء اور بعد ازاں چارلس ڈارون کے حقیقی نظریہء ارتقاء و نامیاتی مادے سے پہلے یک خلیاتی (Single cellular) اور بعد ازاں کثیر خلیاتی (Multi cellular) جانداروں کے ارتقاء کی پیش رفت دراصل اسی تلاش جاری و ساری کا شاخسانہ تھی ۔ اِسی طرح ادیان کے اوجِ کمال کو پہنچتے پہنچتے تلاشِ نفس کو تلاشِ حق یا خدا کے موافق قرار دینے کے پیچھے بھی دراصل یہی سوالِ اوّلِ کائنات ہی کار فرما نظر آتا ہے ۔ رُوحانیات و طریقت کی راہوں پر می نہ دانم تُو شد کی بات ہو یا منصور حلاج کے نعرہ مستانہ کی صدا کہ ان کے بیچوں بیچ یہی کوہِ ندا آشکار رہی ۔ سگمنڈ فرائیڈ کی دِی ڈرمیز کے مطابق خوابوں کے بننے اور بکھرنے کے عوامل ہوں یا نفسیات کی تحلیلِ نفسی اور شعور و لا شُعور کی تہہ در تہہ جزیات مگر ان سب کی چُھپی نفسیات (Inherent Psychology) ایک ہی طرح کی ہے اور اُسی فکرِ اعظم و ازل سے متصل اور منّور بھی ۔
جناب اسلم سراج الدین کی فکرِ رسا کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے تلاشِ وجود کے اس سفر میں روایتی گیان و دھیان اور معلوم اساطیر یعنیMythologyسے استفادہ کرنے کی بجائے اشیاء کی ہیئت و ماہیت کو اپنی منفرد نظر سے دیکھنے اور ان کے از سرِنو جائزہ کا جو کھم کیا ہے ۔ یہ بات کہنا آساں مگر اس پیرائے میں اوّل سوچنا اور دوم ضبطِ تحریر میں لا کر صفحہء قرطاس کی زینت بنا دینا انتہائی مشکل و ادق کا م تھا جسے میرے ناقص مطالعہ کی رو سے بالتفصیل کسِی بھی ادب میں پہلی بار پیش کیا گیا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ تلاش وجود کے تمام موجود سانچوں کو ہی سرے سے توڑ دینا چاہتے ہیں جو اب تک انسانی فکر و ضبط کو گُو مگُو کیفیات میں رکھے ہوئے ہیں اور حیرت ہے کہ جالا مکھی کی طرح اُس کے دماغ کے انٹینوں پر بچھی پڑی ہے ۔ اُنہوں نے اِس ہذیانی کیفیت سے باہر آنے کیلئے بندشِ فکر کے آکٹوپس کو کمر سے پکڑ کر نوچ دیا ہے اور اپنے تخیلاتی و جمالیاتی دائروں میں رقص کناں ہو کر تلاشِ حق کے نئے معیارات قائم کئے ہیں ۔ وہ کائنات کے تمام نظامین اور عناصرِ فطرت کو الٹ پلٹ کر دیکھنے کے عادی ہیں ۔ اُن کے نزدیک جان و بے جان ایک ہیں اور وہ قاری کو اُس جہانِ حیرت میں اتار کر دم لیتے ہیں جہاں بجا طور یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ ابھی ارد گرد کا تمام شور و شراپ سکُوت اختیار کرکےStatueبن جائے گا اور جمادات و نباتات ہاؤ ہُو کا الاپ شروع کر دیں گے ۔ اِس خیال سے ان کے نزدیک کچھ بھی ناممکنات میں سے نہیں ۔ وہ معلوم کو نہ معلوم ، موجود کو نا موجود ، حاضر کو غیر حاضر اور جان کو بے جان کرکے دیکھنے پر مائل نظر آتے ہیں ۔ وہ دراصل دم کے نَے میں لَے تک سربستہ راز سے پردہ اٹھا دینا چاہتے ہیں ۔ کائنات کے سب سے بڑے اور ادق موضع پر جدید دور میں نئے ڈھنگ اور آہنگ سے بات کرنا محاورتاً نہیں بلکہ اصولاً جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ نامعلوم دنیاؤں کی دریافت کا یہ سفر کس قدر طویل ، دشوار اور آشوب کار ہے ، اِس کا اندازہ تو وہ ہی لگا سکتے ہیں مگر میری دانست میں یہ معمول یعنیRoutineکا کام نہیں ہے جِس کی وجہ سے اِس مجسم خلق کے تار و پود نہایت نامانوس اور ادق محسوس ہوتے ہیں۔ اس نسبت سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کے موضوعات عام قاری کی فہم سے مہا بالا و مشکل ہیں مگر یہ کوئی اچھنبھا بات نہیں کہ دنیا میں جوائس اور ویٹیگن کو پڑھنے والے اگر لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں تو مِل ہی جائیں گے۔
اتنے بلند آہنگ میں سوچنا اور پھر نامعلوم کو معلوم کرکے صفحہء قرطاس پر منتقل کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے اور اس ریفرنس سے میں تو یہی کہوں گا کہ بابا یہ کوئی ناول نگاری نہیں ، فسوں کاری ہے فسوں کاری! غالباً اپنے موضوعات کی نسبت سے انہوں نے بعض جگہوں پر دقیق استعارات اور پیچیدہ زبان و بیان کا سہارا بھی لیا ہے جو میری دانست میں قاری کی سہولت کے پیش نظر ہی سہی پر اسے قدرے سادہ ، رواں اور آسان فہم کئے جانے کی گنجائش بہر طور موجود تھی ۔ جملوں کی ساخت اکثر اوقات اتنی پر پیچ اور کمپلیکس ہے کہ بنا بنایا تصور بھی دو سطر چلنے سے گریز پا اور باردگر مین تھیم سے جڑنے میں بڑا وقت لگ جائے۔ ساری سندرتا دراصل ان کے جینوئن متصورہ و متخیلہ اور ندرتِ خیال و قیاس کی ہے ناں کہ الفاظ کی اُدھیڑ بن اور فقط استعاراتی نظامِ فکشن کی ۔ بہرحال اُن کے افسانوں ہی کی طرح اُن کی یہ تحریر بھی اپنی تمام تر زمانی و مکانی و سعتوں کے ساتھ اپنے مخصوص رنگ و آہنگ میں صرف اور صرف اُن ہی سے موسوم و منسوب ہے ۔ اگرچہ اِس ناول کے ابتدائی اوراُخروی صفحات ابھی میری نظر سے نہیں گزرے تا ہم تلاشِ وجود سے متعلق یہ پورشن چونکہ بذاتِ خود ایک مکمل اوربا معانی تمثیل ہے اسلئے اس کی کردار نگاری یعنیCharaterizationپر بات ہو سکتی ہے ۔ تلاشِ وجود کی کتھا میں موسیقی کے فنِ لطیف سے کیکٹائی کے گیت تک اور فکر کو ماروائی جہتوں سے ہمکنار کرتا طنبورا کا کردار ناقابل فراموش اور امٹ نقوش کا حامل ہے اور آرٹ کے جملہ منطقی مقامات کا استعارہ بھی جِسے درباری کا نہڑا کے خیال کے طور پر پیش کیا گیا ۔ ناول کے اِس پورشن کا سب سے پر اثر اور زندہ جاوید کردار قنائے ہے جِس کی مثال قدیم و جدید متِھ میں کہیں نہیں ملتی ۔ یہ عجیب و غریب کردار جس کا خمیر ہمارے قرب و جوار سے اٹھا ہے اپنے اندر جان و بے جان کی دوئی کو ختم کرنے پر قادر و اکلیم ہے اور مائتھالوجی کے رستے نا موجود کے موجود کا پتہ دیتا ہے ۔ اپنی ہیئت و ماہیت کے اعتبار سے ہی یہ کردار منفرد نہیں بلکہ اپنے نام اور مقام کے اعتبار سے بھیuniqueہے اور میری ناقص رائے میں یہ کردار زندہ رہنے اور زندہ کرنے کے مقام اتصال پر ہے ۔ صاحب جان ہو کہ امراؤ جان ادا ، طوائفوں اور بیسواؤں کے کرداروں سے اردو ادب بھرا ٹُھسا پڑا ہے مگر رگِ جاں سے لذت کھروچنے اور خود کو وقفِ بے مایہ کرنے کا تصور ملکہ جان کے کردار میں پہلی بار ادب میں در آیا ہے ۔ تلاشِ وجود کی مد میں اس وقت تک کے تمام تر سائنسی نظریات مثلاً سپیشل تھیوری آف اضافیت(Relativity)، پارٹیکل فزکس ، میٹا فزکس وغیرہ کے اذکار سے بعنوان شوری شُد آگے گذرتے ہوئے عظیم تر متصورہ و متخیلہ سے کام لیتے ہوئے اٰن کے منطقی یعنیUltimateیافت کا اشارہ بذاتِ خود بڑے فکری و جہتی پیش خیمے کا استعارہ ہے ۔ اِتنی بڑی بات یقیناًکسی بڑے فنکار یعنی شاعر یا فکش نگار کے دماغ میں ہی ودیعت ہو سکتی ہے کہ تجربے و مجادلے سے پہلے یہ چیزیں متخیلہ و متصورہ میں پل بھڑ کر جوان ہوتی چلی آئی ہیں ۔ اعتذار کے ضمن میں اپاہچوں کے رنگا رنگ کردار اور ترکِ رسم گدا گری کے ساتھ تلاش عظیم کی سّر کے ساتھ اپاہچوں کی نامعلوم مقام کو لپک اپنے اندر بیش بہا جہانِ معنی سموئے ہوئے ہے ۔ تمام کردار مل کر ایک ایسی فنی اکائی کوCreate کرنے میں کامیاب تر ہیں کہ جہاں فنِ تخلیق اپنے انتہائی عُروج پر ہے ۔

Leave a Comment