ہمارے ہاں جو اندھی تقلید سے انکاری ہے وہ روشن خیال لبرل اور کسی حد تک مذہب سے دور اور ملحد سمجھا جاتا ہے…مجھے اس تشریح سے اب انکار ہے ..اگر پاکستان میں ہوتا تو زندگی بھر مذہب کے خوف سے ڈرایا جاتا اور عذاب قبر کے ڈر سے اس بارے میں سوچنا کب کا چھوڑ چکا ہوتا.. ..لیکن اب لگتا ہے انسان اور اس کی سوچ اتنی محدود نہیں ہے..جیسے ہمارے ہاں عام مسلمان ہونے کیلئے سمجھا جاتا ہے…یہی بنیادی نکتہ ہے جسے ہم سمجھنا نہیں چاہتے..اگر ہمارا خدا محدود نہیں ہےتو ہم کیسے ہو سکتے ہیں…جب وہ تمام کائناتوں کا خالق ہے ایسی کائنات جس کی وسعتیں ناپنے سے آج کا جدید انسان بھی قاصر ہے تو ہم اپنے ہم نسل انسانوں سے کیسے تعصب اور نفرت برت سکھتے ہیں…تمام انسانوں اور مذاہب کی بنیادی اخلاقیات ایک ہی تھیں گو اب ایسا نہیں ہے..انسان نے فطرت کو بے لگام مان کر اپنی اپنی نئی تشریحات پیدا کر لی ہیں… گو گناہ ثواب کی تاویلات بدلی ہیں لیکن بڑے پیمانے جرم و سزا کے میعارات اب بھی یکساں ہیں.. اور معاشروں میں گناہ و ثواب کا یہ تضاد بھی نئی بات نہیں ہیں…ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے. لیکن انسان کی انسان سے نفرت اور اونچ نیچ کو جس حد تک ہو سکے ہمیں کم کرنا چاہئے.. شاید یہی وہ انسانی معراج ہے جس سے سب کا خدا خوش ہوتا ہو گا……ہمارے یہاں لوگ ایک دوسرے کے ذاتی گناہوں پر نظر رکھتے اور ٹوکتے ٹوکتے منافق بن گئے ہیں ہم جرم اور گناہ کو گڈ مڈ کر بیٹھے ہیں اب نہ جرم کا خوف رہا ہے نہ گناہ کامکمل تصور ..کیونکہ ہر تصور اس پر عمل سے مشروط ہے.. جب کے مغرب نے دو مختلف نظام اپنائے ہیں…وہاں آپ کے مذہب کی تشریحات کی بناء پر ذاتی گناہ آپ کی ذات تک محدود ہے لیکن وہ جب وہ گناہ یا عمل آپ کی ذات سے نکل کر معاشرے میں انتشار یا کسی دوسری زندگی میں دخل کا سبب بنتا ہے وہ جرم بن جاتا ہے..اور اس کی یکساں سزا ہے ہر شخص کیلئے .. ہمارے ہاں کنفیوژن زیادہ ہے…مثال کے طور پر مغرب میں شراب پر کوئی پابندی نہیں ہے یہاں شراب پینا کئی حوالوں سے جرم تو ہے لیکن گناہ نہیں ہے.. لیکن مجھے کبھی کسی سڑک, کسی گھر کے باہر کسی عوامی مقام پر کوئی شرابی جھومتا نظر نہیں آیا..جب کے ہمارے ہاں اس پر انتہائی سخت پابندی کے بعد بھی ایسے نظارے عام ہیں…..حتٰی کے ہر رمضان میں تک کچی شراب پینے سے سینکڑوں مسلمانوں کے مرنے کی خبر آتی ہے. .ہم نے سزا و جزا کو طبقات میں تقسیم کر کے قانون کو سخت متعصب بنا دیا ہے.. اس لئے اب کسی مراعت یافتہ طبقے یا مذہبی یا غیر مذہبی گروہ کی کسی کمزوری پر آواز اٹھائیں تو ان کے اندھے تقلیدی اُس سامنے نظر آنے والی حرکت کو چھوڑ کر پہلے سوال کرنے والے سے الجھتے ہیں اس پر شک کرتے ہیں..اس کے مذہب,مسلک, نظریات اور وفاداری پر پہلے سوال اٹھتا ہے..یقینا ایسے لوگ ہوں گے جو دانستہ کسی ایجنڈے پر بھی ہوں..لیکن اسے پرکھنا اتنا مشکل نہیں ہے..وہ رنگ تھوڑی سے تگ و دو سے سامنے آجاتا ہے. لیکن کسی مخالف رائے , فرقے اور مذہب یا ملحد کی کسی رائے کو یکسر ملعون اور نا قابل قبول قرار دے کر رد کر دینا اور اور اسے روشن خیال اور لبرل کہہ دینا کوئی منطق نہیں ہے…میں ایک خدا پر ایمان رکھتا ہوں…لیکن اسٹیفن ہاکنگ مجھے بے حد پسند ہے.. اس کے نظریات سوچے اور پڑھے جانے کے قابل ہیں…کیوں کہ وہ خدا کے اپنے نہ ماننے پر اپنے دلائل دیتا ہے..وہ نہ بے مقصد تقلید میں ہے نہ میں نا مانوں کی جاہلانہ روش پر… .اور نہ ہی کسی صحت مند ذہنیت اور معاشرے میں دوسرے کو یکسر رد کرنے والا یہ رویہ قبول کیا جا سکتا ہے..لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہمارے یہاں یہی ایک سوچ زیادہ قابلِ قبول ہے ..اس کا علاوہ ہم کچھ سننے کو تیار ہیں نہ سمجھنے کو…ہر شخص اپنی رائے کو حرفِ آخر مانتا ہے . اقبال نے کہا تھا “تقلید کی روش سےتو بہتر ہے خود کشی…لیکن اقبال کی بھی اندھی تقلید ہی کرتے ہیں..جب بطور انسان ہر انسان کو خدا نے سوچنے سمجھنے کا یکساں موقع اور دماغ دیا ہے..تو کیا ہم کچھ غور و فکر کی بھی زحمت کر لیں .. اور یہاں ایک بات اور یاد رکھنے کی ہے..خدا نے انفرادی سزا اور جزا کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں رکھا ہے روز قیامت پر سب کا ایمان بھی ہے. ..کوئی خدا کو مانتا ہے یا نہیں مانتا یہ انسان کا مسئلہ نہیں ہے لیکن ہمارے ہاں یہی بڑا مسئلہ رہ گیا ہے..اگر ابلیس تک تو قیامت تک کی مہلت ہے تو یہ خدا کے ڈیو پراسس آف لاء کی کھلی نشانی ہے کہ وہ اختلاف رائے کو برداشت کرتا ہے اور اپنی مخلوق کو پورا موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے ذہن سے اسے تسلیم کرے یا نہ کرے.. یہاں ہم اس معاملے میں انسانوں پر زمین تنگ کئے بیٹھے ہیں…سارا فساد اس سوچ کا ہے…..اب کوئی مجھے روشن خیال کہے یا لبرل یا مذہب سے دور ..اب میں انسانوں کو انسانوں سے رویے کی بنا پر پسند یا نا پسند کرتا ہوں… اقبال کی یہ بات میرے دل کو لگتی ہے کیا کروں میں..
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے..
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا