مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حسی رابی گل شاہ


کہا جاتا ہے کہ جیسے جیسے انسان عقل و شعور کی منازل طے کرتا جاتا ہے علم و آگہی کے دروازے اس پر وا ہونے لگتے ہیں۔ دنیا سمٹ کر اس کے قدموں میں آ جا تی ہے ۔ آج ہم ترقی کی انتہائی منزل پر ہیں اور مزید ترقی کر رہے ہیں مگر کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ آخر اتنی ترقی کیوں اور کس لیے؟ ترقی اور ماڈرن ہونے کے نعرے نے ہمیں اخلاقیات اور سماجیات سے کتنا دور کر دیا ہے۔ پھر یہ ترقی کیسی ہے کہ جس سے صرف چند لوگ ہی مستفید ہو رہے ہیں۔ باقی ماندہ لوگ تو آج بھی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔۔
آج دنیا نے ستاروں اور سیاروں کے راز جان لیے مگر یہ نہ جان پائی کہ آج بھی کتنے ہی انسان بے گھر ہیں ۔تمام ترقی یافتہ ممالک اپنے بجٹ کا بڑا حصہ اس دنیا کے راز جاننے میں لگا رہے ہیں اور اس دنیا کا سب سے بڑے کھلے راز سے نظریں چرا رہے ہیں۔بھوک اور بے گھری آج کی دنیا کا سب سے اہم مسئلہ ہیں ۔ وہ پیسہ جو ستاروں پر کمند ڈالنے کے مصرف میں لایا جا رہا ہے اس سے لاکھوں کڑوڑوں لوگوں اور معصوم بچوں کو روٹی مل جاۓ گی۔۔وہ اربوں رپیہ جو ایٹمی ہتیھیاروں پر خرچ کیا جا رہا ہے اس سے کتنے ہی بے گھر لوگوں کو گھر اور تعلیم کی سہولت مل جاۓ۔۔ مگر نہیں ہم صرف اپنا سوچتے ہیں۔۔
آج گھروں میں لاکھوں کی قیمتی گاڑیاں ، زیور ، نت نۓ ملبوسات کا ہونا لوگوں کے لیے عام سی بات ہے مگر غریب کو دینے ک لیے ہمارے پاس پانچ روپے سے زیادہ نہیں وہ بھی ایسی شان سے دیں گے کہ لینے والا شرمندہ ہو جاۓ۔۔یہ کیسا تضاد ہے معاشرے کا ؟ ترقی ہو تو پھر سب کے لیے ہو ۔روٹی ہو تو سب کے لیے۔۔یہ کیا کہ ایک تو مرغن کھا کر سو جاۓ دوسری جانب غریب کا چولھا خاموش نوحا پڑھتا نظر آۓ۔۔اب اگر کوئی یہ سوچ کر خود کو بہلا لے کہ یہ تو اللہ پاک کی تقسیم ہے تو بے شک یہ اسی کی تقسیم ہے مگر اس طرح وہ ہم انسانوں کو آزماتا ہے ورنہ سب کو برابر کا رزق دینا اس کے لیے کوئی مشکل بات نہیں۔۔۔
ہم خود کو ترقی یافتہ دور میں شمار کرتے ہیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ہم فرعونوں سے بھی بدتر دور میں جی رہے ہیں اور اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اللہ پاک کے عطا کردہ رزق پر فرعون بنے بیٹھے ہیں۔کیا کبھی ایک بار بھی یہ سوچا ہے کہ اگر اللہ تبارک تعالیٰ نے ہمیں ہماری ضرورت سے زیادہ دے دیا ہے تو اس میں شاید کسی اور کا بھی حصہ ہو۔۔ہم زکوۃ نکال کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے تو اکثر وہ بھی ادا نہیں کرتے مگر غور طلب بات تو یہ ہے کہ زکوۃ کی ادائیگی تو ہم پر فرض ہے جس کے نا دینے ہر سزا ہماری منتظر ہے تو ہم تو سزا سے بچنے کے لیے وہ ادا کرتے ہیں ورنہ اس پر بھی ڈنڈی مار جاتے۔۔
مگر آج بھی لاکھوں لوگ ہماری جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں ۔مگر ہماری اپنی خریداری ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی تو ان کی طرف کیا دیکھیں۔۔ ہماری نگاہوں کو خیرہ کر دینے والے زیورات ہمیں اتنا مدہوش کر دیتے ہیں کہ بھوک سے بلکتے بچے کی آواز ہمارے کان میں آۓ بھی تو کیسے؟
آج دنیا کی کتنی فیصد آبادی جو کہ ترقی سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔۔اکثریت تو مستقل دور فرعون سے زبوں حالی کا شکار ہے بس بیچ میں سے دو تین صدیاں نکال دیں جو پیغمبر اسلام رحمت للعالمین کاحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا دور ہے اور اس کے بعد آپ ﷺ کے رفقا کا ر کا دور تھا جس میں بکری کے بچے کو بھی وہ تحفظ حاصل تھا جس کے لیے آج ایک انسان ترس رہا ہے۔۔اس دور کے عظیم حکمران جو عوام سے بھی کم تر حالت میں زندگی بسر کرتے مگر عوام کے دلوں پر حکومت کرتے۔۔ آج کے حکمران ہمیں دولت کے پجاری بنے نظر آئیں گے مگر در حقیقت انھیں اس بات کا ادراک نہیں کہ جس دن بھی یہ عوام کی دسترس میں آ گۓ تو وہ ان کی بوٹیاں نوچ کر چیل کوؤں کو کھلانے میں لمحے بھر کی بھی تاخیر نہیں کریں گے۔۔ ان حکمرانوں کو اتنی بڑی ذمہ داری دے دی گئی ہے جس کے وہ کہیں سے بھی اہل نہیں نہ علم و دانش میں نہ سمجھ داری اور بردباری میں
ہمارا معاشرہ بے حسی اور سنگ دلی کے اس گہرے سمندر میں اتر چکا ہے جس سے باہر آنا جوۓ شیر لانے کے مترادف ہے۔ہر شخص صرف اپنا سوچ رہا ہے کہ کسی طرح سے میری ضرورت پوری ہو جاۓ۔ صبر ، شکر ، قناعت تو جیسے انسانوں میں رہا ہی نہیں۔ ہر انسان حالات کا رونا روتے نظر آۓ گا ۔۔آللہ پاک کتنا ہی نواز دے مگر وہ یہی کہے گا کہ گزارہ ہوتا ہی نہیں۔۔بجلی کو الزام تو دے گا مگر چوری کی بجلی سے گھر کے ہر کمرے میں موجود اے سی ضرور چلاۓ گا۔۔ غریب نوکر کو دوا کے لیے سو روپے نہیں دے گا کہ ہمارا ہی خرچا پورا نہیں ہوتا تم کو کہاں سے دیں مگر رات میں بچوں کو پزا کھلانے ضرور لے جاۓ گا
ایک پل کے لیے یہاں ٹھریے اور سوچیے کہ آج جو ہر انسان کہہ رہا ہے کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے گزارہ مشکل سے ہوتا ہے تو ذرا اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہیں کہ کیا ہم میں سے کسی نے بھی ایسا دیکھا ہے کہ بازار کھلا ہونے کے باوجود سنسان ہو ۔۔کسی بھی ہوٹل یا ریسٹورنٹ کے سامنے گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں نہ ہوں یا کسی آئسکریم پالر کے آگے لوگوں کا رش نہ ہو؟
یہ گاڑیوں کا روز بروز بڑھتا رش، نئی نئی قیمتی گاڑیاں سڑکوں پر آپ کو نظر نہیں آتیں؟ انھیں دیکھ کر تو لگتا ہے کہ کسی نے مفت میں بانٹی ہیں پھر کہاں ہیں مہنگائی؟
بے شک اچھا کھانا اچھا پہننا اچھی زندگی گزارنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے مگر انسان کو اللہ کا شکر گزار بھی ہونا چاہیے جو ہمیں اتنی نعمتوں سے نواز رہا ہے اور بغیر کسی حساب کتاب کے بس عطا ہی کیۓ جا رہا ہے۔ہفتے میں چار دن باہر کھانا کھانے کی بجاۓ ایک دن وہی پیسے کسی غریب کو دے کر دیکھیں پھر دیکھیں کتنی طمانیت کا احساس ہو گا۔بار بار کی نا شکری اللہ پاک کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔
اگر خود جی رہے ہیں تو ان کو بھی جینے دیں جن کا نصیب تھوڑا کمزور ہے مگر آپ کے پاس تو بے حد ہے تو تھوڑا مل بانٹ کر کھا لیں۔خوشیاں ہمیشہ باٹنے سے بڑھتی ہیں کبھی اس طرح بھی خوشیاں بڑھا کر دیکھیں-
ان مستحق غریب اور سفید پوش لوگوں کو ڈھونڈئیے جو اپنی خوداری سے کس طرح سے زندگی کا بوجھ ڈھو رہے ہیں ۔ان کو اپنے ساتھ ملائیے انھیں احساس دلائیے کہ وہ بھی انسان ہیں اور ان کا بھی زندگی کی نعمتوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا آپ کا –
یاد رکھئیے وقت کبھی کسی کا انتظار نہیں کرتا۔۔آج کا انسان نبی پاکﷺ کے دور کا تو دیوانہ ہے مگر فرعون کے دور حکومت سے نفرت کرتا ہے۔۔ سو یہ وقت بھی گزر جاۓ گا ۔۔یہ دور بھی قصہ پارینہ بن جاۓ گا ۔۔اگر ابھی بھی بے حسی اور مطلب پرستی کے چنگل سے باہر نکل آۓ تو ہمارے لیے فلاح ہے ورنہ اللہ کے لیے کچھ مشکل نہ تھا فرعون کو لشکر سمیت دریا برد کرنا۔

Leave a Comment