مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

(عطا شاد ایک دوست ایک شاعر اور ایک عہد ساز شخصیت ۔ ۔ ۔ ۔ ( نعیم بیگ


گزرے لمحوں کی خوشگوار یادیں اپنی خوشبو لیئے جب کبھی آپکے آس پاس منڈلاتی ہیں تو یقین کر لیں کہ وہ لمحے آپکی روح تک سرائت کئے ہوئے ہیں اور اسکے کردار اپنا روپ دھارے سامنے آنے کو تڑپ رہے ہیں۔ بلوچستان کے دوستوں کی یادیں بھی کچھ ایسی ہی دل کے نہاں خانوں میں ڈیرہ ڈالے ہیں کہ جب چاہو سامنے لاکھڑا کر دو۔۔۔وہی مسکراہٹ وہی ، خوشہ چینیاں اور وہی قہقہے۔ یوں تو بلوچستان میری رگوں میں دوڑتے خون کی طرح ہمیشہ مجھے زندگی کی نوید ہی سناتا رہا لیکن جب میں اپنی اوائلِ نوجوانی میں سیاسی سرگرمیوں پر کالج میں گرفتاری کے بعد حوالات سے نکل کر سیدھا اپنے والدین کے پاس کوئٹہ پہنچا تھا تو میرے جاننے والوں میں صرف میرے والدین اور بہن بھائی ہی تھے۔
سن ستر کی دہائی کا اوائل تھا اور مشرقی پاکستان علیحدہ ہو چکا تھا اور دلوں پر پژمردگی سی چھائی تھی۔ میکانگھی روڈ پر مالی باغ کے قریب ایک گھر میں مقیم و مقید میرے بے چین روح کو دوستوں کی ضرورت تھی اور دوست نایاب۔ رفتہ رفتہ شب و روز اپنے نظر آنے لگے اور پھر ایک دن قریبی ہمسائے میں طاہر محمد خان ایڈوکیٹ (بعد ازاں چیرمین سینٹ پاکستان ) کا دفتر تھا جہاں میری پہلی ملاقات اسمعٰیل بلوچ سے ہوئی ۔ ملاقاتیں بڑھیں تو ایکدن وہ مجھے سیدھا پریس کلب لے گئے جہاں مشرق کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر عالی رضوی ، غلام طاہر بیورو چیف پاکستان ٹائمز اور دیگر سینیئر صحافیوں سے ہوئی ان میں ایک نوجوان خوب میرے دل کو بھائے وہ مشرق اخبارمیں ’’ مراد بلوچ‘‘ کے قلمی نام سے کبھی کبھار کالم بھی لکھتے تھے پوچھا تو معلوم ہوا شاعر ہیں اور نام عطا شاد ہے۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔
ان دنوں میں تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ریڈیو پر بزم طلبہ پروگرام میں کبھی کبھار حصہ لیا کرتا تھا اور کبھی کبھی عالی رضوی کی استدعا پر مشرق میں کالم بھی لکھ دیا کرتا تھا ۔ چند دنوں بعد عطا شاد سے میری دوسری ملاقات ریڈیو پاکستان کوئیٹہ میں بزم طلبہ کی ریکارڈنگ کے بعد پروگرام مینجر عبدالصمد درانی کے کمرے میں ہوئی۔ جہاں گفتگو کی ایک بھرپور نشست رہی اور یوں عطا شاد میرے دل پر چھانے لگے۔ وہ انہی دنوں پاکستان جمہوریہ کے آئین نو کی ایک تقریب جو اسلام آباد منعقد ہو رہی تھی میں بلوچستان سے صحافی ، دانشور شاعر و ادیب ، ریڈیو کے فنکار اور طلبہ پر مبنی ایک نمائیدہ وفد بذریعہ ریل راو لپنڈی لے جانے کا اہتمام کر رہے تھے ۔ ان دنوں وہ شائید ادارہ ثقافت پاکستان کے ڈائریکٹر تھے وہیں ایک پروگرام کے دوران انہوں نے مجھے بھی دعوت دی اور میرا نام ریڈیو پاکستان کے فنکاروں میں شامل کرتے ہوئے عطا شاد نے ایک ایسی لازوال دوستی کی بنیاد رکھ دی جس کے انمٹ نشان آج بھی میں اپنے دل کے جھروکوں میں پاتا ہوں۔ وہ ٹرین کا ایک سفر تھا یا میری زندگی کا ایک یادگار باب جسے میں آج تک اپنے دل کے صنم خانے میں سجائے امانت کے طور پر رکھے عطا شاد کو دیکھتا رہتا ہوں۔ اسکی محبت ، اسکی شاعری ، انسان دوستی اور اس کے اندر صدیوں کے چھپے اپنے وطن سے دلداری کے نغمے اور اسکی بو باس اس کا کل اثاثہ تھے۔
سماج کی ظالمانہ اور نفرت بھری عفریت کو وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
میری زمین پر اک کٹورے پانی کی قیمت
سو سال وفا ہے
آؤ ہم بھی پیاس بھجائیں
زندگیوں کا سودا کر لیں۔
اپنی بلوچ روائتوں کے امین عطا شاد ہمیشہ اپنی زندگی کے پُرخار راستوں پر اپنی مرضی سے چلے۔ انہوں نے زمانے کے ساتھ چلنے کا بھرم تو نبھایا لیکن راستے خود اختیار کیئے۔
اپنے عہد کے ان کہے کئی ایک لمحے ان کی شاعری پر اثر انداز ہوتے رہے لیکن انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا اور اپنی تخلیقی سرگرمیوں کو ایک نیا انداز، نیا اسلوب سونپ کر شاعری میں رمز و ملال کا ایک نیا باب کھولا۔
ان کی ایک لازوال نظم اپنی پوری قوت کے ساتھ اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔
دم گھُٹے شہر ، بے حساب ہوا
ہے میرے دور کا عذاب ہوا
رات بھر چاہ تھی چراغ چراغ
صبح دم سبز انقلاب ہوا
ان سنی دھڑکنوں کا درد سدا
ان کہی خواہشوں کے خواب ہوا
ہاں تیرے عہد کا قلم ، تاریخ
ہاں میری سوچ کی کتاب ، ہوا
ہے میری خواہشوں کی خوشبو راکھ
اور تیرے جسم کا گلاب ، ہوا
ہم سے پھوٹ عطا یہ جان کا حبس
کہ حباب آب ہے اور آب ہوا
زندگی اپنے راستہ پر رواں دواں رہی۔ میں جب تک بلوچستان میں رہا ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ پھر ایک وقت آیا سن اسّی کی دھائی اپنے اندر ایک ایسا المیہ لیکر آئی کہ بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہوا ۔ حکومتی ادارے شکست و ریخت کا شکار ہوئے ،انسان ٹکٹکی پر بندھ گئے اور زبانوں پر تالے لگا دیئے گئے لیکن عطا شاد اپنے دھن کے پکے اپنے دبلے جسم کے ساتھ ایک آہنی عزم کو اپنا نقش بنائے ہوئے ان عفریتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے نبرد آزما رہے۔ ہم کہتے رہے لیکن وہ کسی کی نہ سنتے تھے۔ خاک و خون سے اٹے اپنے سماج کو جلاِ بخشتے رہے۔ انہوں نے اپنی مٹی کو اپنا دھرم قرار دیا۔ یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے اردو شاعری کو اپنی بلوچی شاعری کا روپ بخشا۔ چیدہ چیدہ بلوچی روائتوں کو اردو میں ایک مقام دیا۔ یہی وجہ ہے جس پر اہل علم و دانش نے عطا شاد کو اردو اور بلوچی زبان کے درمیان ایک مظبوط پل کا نام دیا۔
انکی معروف نظمیں ’’ ماہناز ‘‘ ’’شاہ مرید اور حانی‘‘ اور ’’ وفا اور لوری ‘‘ جیسی شاہکار نظمیں انکے اسی فکری سوچ کی آئنہ دار ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ ہمیشہ نہ صرف اپنی زمین کے اپنی شاعری میں ایک بہترین عکاس تھے بلکہ اس دھرتی ماں کے بلبلاتے چہرے کو بھی اس نے زبان بخشی اور پھر اپنی بلند آواز میںآمریت کو للکارا۔
بلوچی زبان کے معروف دانشور ڈاکٹر نعمت اللہ گچکی نے کسی ایک جگہ اپنی تقریر میں کہاتھا ’’ عطا اپنی ذات میں ایک انجمن تھا۔اس نے اپنی خدادا صلاحیتوں سے بلوچی زبان میں الفاظ کا ایسا استعمال رائج کیا جو رہتی دنیا تک چلے گا۔ عطا شاد کو شاعری کے علاوہ ڈرامہ نویسی ، افسانہ اور ڈائری لکھنے میں کمال حاصل تھا اور ایک الگ اسلوب کے ساتھ انہوں نے اپنی فکر کو ایک زباں دی۔ ‘‘
حکومت پاکستان نے انکی ادبی خدمات پرصدارتی پرائڈ آف پرفارمنس کا تمغہ عطا کیا ہے۔ عطا شاد پر میرے چند فاضل دوستوں نے ریسرچ کا جو کام کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ ان دوستوں میں کوئٹہ سے عرفان احمد بیگ کا پی۔ایچ۔ڈی مقالہ ، حکیم بلوچ اور افضل مراد کا کام اپنی تاریخی حثیت رکھتا ہے۔
میری ان سے آخری ملاقات میرے آفس کے سینئر محمد خلیل بلوچ کے گھر پر شائید انکی وفات سے چند مہینے پہلے ہوئی ۔ اس وقت بھی وہ کافی علیل تھے لیکن ہم کافی دیر تک بلوچی احوال کرتے ہوئے قہقہے لگاتے رہے ۔ چلتے ہوئے میں نے عطا کا ہاتھ پکٹرا تو وہ خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا شائید اذِنِ الہی اس پر آشکار تھا اور دوستوں سے جدائی اسکا شیوہ نہ تھا۔
گل خان نصیر کی یاد میں کہے عطا شاد کے ان الفاظ کو ایک زمانہ یاد رکھے گا۔
ڈھلی جو شام سفرِ آفتاب ختم ہوا
کتابِ عشق کا ایک اور باب ختم ہوا
وافا کی راہ میں نقدِ جاں ہی باقی تھا
سو اس حساب میں یہ بھی حساب ختم ہوا

Leave a Comment