مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

کھوتا خور زین الحق کراچی – پاکستان

 



گدھا ایک شریف انفس جانور، جمالیاتی حسن ایسا کے انسان نے محاورے بھی بنالئے ہیں ” جوانی میں کھوتی بھی حسین لگتی ہے “. جتنا مرضی بوجھ لاد دیں اف نہیں کرتا. چوپاے جانوروں والی ساری خصوصیات سے بھر پور، دوڑنے میں تیز، دولتیاں مارنے میں مشہور.کان لمبے اور بڑے، سینگ سے محروم. گاے ، بھینس جیسے معصوم جانور بھی سینگ پھنسا دیتے ہیں. شیر،جنگل کا راجہ پھر بھی سینگ سے ڈر کر بھینسوں پر سامنے سے حملہ نہیں کرتا لیکن گدھا اپنے چال اورکھال میں مست. کمینہ پن تو اس میں چھو کر بھی نہیں گیا ہے. نظر نیچی کبھی گاڑی میں جتا ہوا کبھی مٹی روڑا پیٹھ پر لدا ہوا.زمانہ قبل از تاریخ سے یہ جنگلوں اور انسانی آبادیوں میں پایا جاتا ہے اور اس وقت سے یہ انسانوں کی خدمت کر رہا ہے. پانچ ہزار سال پہلے مصر میں سامان ڈھونے کے لئے اس کا استعمال ہوا جو دنیا کے ہر ملک میں اب تک جاری ہے. جو لوگ گھوڑے کی سواری نہیں کر سکتے تھے گدھے پر بیٹھ جاتے تھے اس پر سے اترنا آسان ہوتا ہے .ملا نصیرادین سے کون واقف نہیں ، انکی خاص سواری بھی گدھا ہی تھا اور اسی پر سوار وہ لوگوں کو مختلف مشورے دیا کرتے تھے. کہیں یہ خچر کے طور پر پہچانا جاتا ہے. شان اس کی یہ ہے کے ایک نبی کی سواری رہی ہے۔
گدھے کی خوبی کوئی مغربی مفکروں سے پوچھے. امریکی ڈیموکریٹ پارٹی جو آج کل امریکا پر حکومت کر رہی ہے اسکا شناختی نشان ” گدھا ” ہے. جیسے گدھا دولتیاں مارتا ہے ویسے ہی امریکا، سامنے سے ڈالر دکھاتا ہے اور پیچھے سے ساری دنیا کو دولتیاں مارتا ہے. ڈنکی کونگ کے نام سے بچوں کے لئے گیم بنائی گئی ہے۔ گدھے کی ایک خوبی یہ ہے کے امریکا ، یورپ سے لیکر پاکستان ، چین اور جاپان تک انکی زبان ایک ہے. نہ ہندی نہ ہی اردو سب کی زبان پر ڈھیچوں ڈھیچوں۔
گدھا عام طور پر بیوقوف جانور مانا جاتا ہے مثلآ انسان کسی کی عقلمندی سے تنگ ہے تو شارٹ کٹ میں اسے گدھے سے تشبیہ دے دیتے ہیں. مثل مشہور ہے کے انسان اور گھوڑے کے حالات کبھی نہ کبھی بدلتے ضرور ہیں لیکن اکیسویں صدی تو جیسے گدھے کے لئے ایک نئی سماجی حیثیت اور رتبہ لیکر آئ ہے. ملک پاکستان میں گدھوں کی قسمت کھل گئی . اب باقاعدہ انکی فارمنگ ہونے لگی ہے اچھی خوراک اور مناسب دیکھ بھال سے انکی آبادی بڑھنے لگی. مغرب میں تجربہ ہوا اور بتایا گیا کے گدھے کے چمڑے کی کوالٹی گھوڑے ، گاے اور بھینس سے بہتر ہے اور انکے چمڑے سے بنی ہینڈ بیگ ، سینڈل ، چپلیں کوالٹی بہتر ہونے کی وجہ کر مہنگی بکنے لگیں اور گدھے خوش کے انکی کھال سے بنی سینڈل پہن کر خواتین کیٹ واک کر رہی ہیں پرس انگلیوں میں نچا رہی ہیں . عالمی منڈیوں میں انکے چمڑے کی مانگ کیا بڑھ گئی.کاروباری پاکستانیوں کے وارے نیارے ہونے لگے. کھال کی سپلائی الگ، گوشت کو ہوٹلوں ، شادی ہالوں کو مٹن کہ کر بیچ دیا اور دولہا دلہن، کھوتے کے تکے کھاکر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر عہد و پیمان کرنے لگے. فوڈ اسڑیٹ والوں کا کاروبار چمک اٹھا. انکی ہڈیوں اور کھروں سے تیل بننے لگے.” ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی” اور یہ سب کھاکر، کتنا بدل گیا انسان۔
لیکن آہ ایے شب سیاہ ، حاسدوں کو گدھے کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھائی. پہلے تو طارق چودھری نے اپنے ایک کالم میں انکی شان میں گستاخی کی. کھال کی تجارت پر بات کی تو گوشت پر سوالیہ نشان بلکہ انگلی اٹھا دی کے گوشت کہاں جاتا ہے. بھئی تمہیں کیا. تم گوشت کھاؤ ، آم کھاؤ – پیڑ کیوں گنتے ہو. اس کالم کے بعد تو اخباروں میں ہا ہا کار مچ گئی فیس بک اور ٹویٹر میں کارٹون چھپنے لگے. اور تو اور – آہ کیا یاد دلادیا، محمد سعید خان رنگیلا اپنے ملک کا ایک کامیاب مزاحیہ اداکار، فلمساز اور گلوکار، اس کی گدھوں سے اتنی محبت کے فلم بنا دی ” انسان اور گدھا “. کیا دن تھے ہمارے. اچھے اچھے چارے بعض اوقات سیب ، ناشپاتی کھانے کو مل جاتے. ہیروئن اور ایکسٹرا لڑکیاں اپنے ہاتھ سے کھلاتیں اور کبھی پیٹھ پر ہاتھ پھیر دیتی تھیں.ایک طرف محبت کا یہ عالم اور کہاں انکی لڑکی عائشہ ممتاز، دل میں بغض کینہ لئے ہوٹلوں پر چھاپے مار مار کر ہمارے گوشت پھینک وادیے اور اسکی دیکھا دیکھی اسلام آباد سے کراچی تک مذبح خانوں پر چھاپے پڑ رہے ہیں ہوٹلوں کی تلاشی ، کچن کی صفائی ، جس ہوٹل پر شک وہ بند۔ اففف یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے۔
حکومت نے گدھوں کی کھال کی بر آمد پر پابندی لگا کر تو جیسے ان کی سموں کے نیچے سے زمین کھینچ لی. گدھوں کی میٹنگ میں اس بات پر تبادلہ خیال ہوا. انکی قرارداد کا مفہوم یہ ہے کے اپنی بیٹھتی ہوئی چکن کی صنعت کوبحال کر نے کے لئے یہ پکڑ دھکڑ کر رہے ہیں اور اس میں کچھ بے ایمان اور لالچی قصائیوں کا بھی ہاتھ ہے جو ان معصوم انسانوں کو کتے اور غلیظ جانور کا گوشت ہمارے گوشت کے ساتھ ملاکر کھلا رہے ہیں اور کوالٹی کنٹرول کرنے والے اداروں کی آنکھوں میں جھول ڈال کر انکی جیب میں مال بھر دیتے ہیں. گدھوں کی فریاد یہ ہے کے پاکستانی اگر انکا گوشت نہیں کھانا چاہتے ہیں نہ کھائیں لیکن انکی توہین نہ کریں اور انہیں ملک چین یا امریکا بر آمد کر دیں جہاں وہ عزت سے زندگی بسر کریں، وقت پہ کھانا اور وقت پہ کام ۔
اب چلتے چلتے ایک سچا واقعہ جس کا راوی ایک ویٹر ہے. لاہور کا ایک رئیس ہر ہفتہ فوڈ اسٹریٹ کے ایک مشھور ریسٹورنٹ میں فیملی کے ساتھ کھانا کھاتا تھا. حسب معمول وہ اس ہفتہ بھی کھانے کے لئے آیا ، مٹن چانپ اور مٹن کڑاہی کا آرڈردینے کے بعد گپ شپ کر نے لگے ، کچھ دیر کے بعد بیرے نے کھانا میز لگا دیا. دو چار لقمہ کھانے کے بعد سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا. کھانے میں کوئی ذائقہ نہیں اور گوشت کم ہڈی زیادہ. بیرا ، وہ چلایا یہ کیا ہے ایسا بدمزہ کھانا. اگر یہ حال رہا تو ہمارا آئندہ آنا بند. پیسہ پورے لیتے ہو اور کھانا انتہائی گھٹیا. سر، سر، بیرا نے کان میں سرگوشی کی ، آج کل گدھے کے گوشت پر پابندی ہے یہ اصلی مٹن ہے صاب اس لئے بدمزہ اور ہڈی بیشمار. ہمارا اپنا برا حال ہے کمائی آدھی رہ گئی ہے کوئی ٹپ نہیں دے رہا، کیا کریں اب تو لگتا ہے ریسٹورنٹ کی جگہ کسی سرکس میں کام کرنا پڑے گا۔

 

Leave a Comment