آج صبح کے اخبار میں بچوں کےلئےمختصر صفحہ پر کئی کہانیاں بکھری ہوئی تھیں،چلبلی کہانی، سنجیدہ کہانی نصیحت آموز کہانی … ہزار بار کی پڑھی ہوئی کہانیاں پھر بھی انکا اپنا ایک لطف ہےجودل و نظر کو تھامتے ضرور ہیں ،اب کتنے گھروں میں کتنے بچے اخبار کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ بھی اردو کا اخبار ، ان کے سامنے برقی ترسیل اتنی تیزگام ہے کہ اخبار پڑھنا تو دور اس کی طرف دیکھنا بھی نئی جنریشن کے لئے اولڈ فیشن بن چکا ہے . اگر دنیا میں ہو رہی اتھل پتھل سے انہیں واقف کرانا چاہو تو ان کے پاس اس سلسلے میں آپ سے زیادہ معلومات ہوتی ہیں ،اپنی بھاگتی دوڑتی زندگی میں ہر عمر کے یہ بچے ایک ہاتھ میں برگر یا چکن رول پکڑ کر اور دوسرے میں موبائل لئے اپنی سا ری تعلیم، تربیت، تفریح اور ضروریات پوری کرتے نظر آتے ہیں . یہ تبدیلی ہماری زندگی میں ،ہمارے معاشرے میں ایک دم سے نہیں آگئی وقت رفتہ رفتہ ہی بدلتا ہے اور اپنے اثرات زمانے پر ثبت کرتا جاتا ہے ہم اور آپ چاہیں یا نہ چاہیں بدلتے ہوئے وقت کا شکا ر ہونا ہر ذی نفس کا مقدر ٹھہرا … مگر ذرا رکئے … پہلے بتا تو دوں کہ یہ خیال آج اخبار پڑھتے وقت اتنی شدت سے مجھے کیوں آیا … بچوں کی کہانیوں میں چھپی نصیحت کیسے ہما ری نشو و نما میں اہم کردار ادا کرتی تھی ، مگر اب یہ نصحتیں ہمارے بچوں تک نہیں پہنچ پاتیں . میں تو یہی دیکھ کر حیران ہوتی ہوں کہ اکثر بچوں کے لئے شائع شدہ مواد ہو یا ادبی صفحات ہوں آج کے مدیر اتنی بھی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ انہوں نے کون سا مواد کہاں سے اٹھایا اور کہاں پیش کیا . کوئی حوالہ نہیں … کوئی نام نہیں … نہ کسی ذمہ داری کا احساس .. یہ تو رویہ ہے پرانے مواد کو وقت ضرورت استعمال کرنے کا … اب آج زندہ ادیب اور شا عر کی بات کریں تو الیکٹرونک میڈیا نے جس برق رفتاری سے تحریروں کو یہاں سے وہاں پہنچانے کا کا م شروع کیا ہے اتنی ہی تیزی سے ان لکھاریوں میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے ، ایک نے ابھی کسی خیال کو کسی کمنٹ میں شیئر کیا دوسرے نے اس پر کوئی تا نا بانا تیار کرکے اسے پیش کر دیا- ابھی وہ اس کار خیر کے بعد خوابِ خرگوش سے جا گا بھی نہیں تھا کہ کسی اخبار کے مدیر نے اسے اپنے اخبار کی زینت بنا کر خبرعام کرکے داد و تحسین بھی بٹور لی، بعد ازاں پتہ چلا کہ غلطی سے وہ تحریر کسی اور کے نام سے شا ئع ہو گئی کیونکہ اسے کاپی پیسٹ کرتے وقت کسی تکنیکی غلطی سے دوسرا نام اس تحریر پر چپکا چلا آیا . بہر حال اگر اب اخبار میں بہت سے شا ئع شدہ مواد پر نام نہیں ہوتا یا حوالہ نہیں ہوا تو کیا ہوا یہ کسی اور کے نام ہونے سے تو کم ہی غیر اخلاقی حرکت ہے ، اب نہ چھا پنے والے کے پاس اتنا وقت ہے نہ ہی پڑھنے والے کے پاس تو فرق کسے پڑتا ہے،سب اپنی اپنی روزی روٹی سے جڑے ہیں اور اس جڑ ت میں اگر کوئی جذبہ کار فرما ہے تو اپنے اپنے حصے کی روٹی کو چھین کر کھانے کا جذبہ … ایک اندھی دوڑ ہے جس میں ہر انسان شریک ہے منزل کا پتہ نہیں بس وہ گول دائرے میں دوڑ رہا ہے … کیونکہ وہ ناک کی سیدھ میں دوڑنا ہی نہیں چاہتا .. ایک سمت کا تعین کرکے دوڑنے سے منزل تو مل سکتی ہے یہ اسے بھی پتہ ہے مگر ایک کسی منزل پر پہنچنے کی تمنا اب اس کے لئے قصہ پارینہ بن چکی ہے اسے تو اس دوڑ میں یوں شامل ہونا ہے کہ اسکی دسترس سے کوئی بھی جہت دور نہ رہ جائے، وہ کارپوریٹ ورلڈ کا بادشاہ ہو تو ادبی دنیا کا بے تاج بادشاہ ، اور سیاست کا بے لگام بادشاہ ..حضرت موسی کے عصا کا ذکر کیا کرنا . اب سب کے ہاتھ میں چھوٹی سی ایک جادوئی ڈبیا آ گئی ہے جس نے انہیں کھل جا سم سم کا منتر عطا کر دیا ہے .. ایک ایسا جن جو غیر مرئی ہے ،اور ہر مشکل میں آپکے کا م آتا ہے اس کا وجود نہ ہو کر بھی ہماری زندگیوں میں اتنا مستحکم ہو چکا ہے کہ اس نے ہر رشتے کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے اب نہ بچوں کو والدین کی ضرورت ہے دوستوں کو دوست کی ، اگر آپ جذباتی ہیں رشتوں کے لئے ،اصولوں کے لئے ، جزا اور سزا کے لئے ،محبت اور بقا کے لئے ،صحیح اور غلط کے لئے تو آج کے حالات میں آپ فٹ نہیں ہیں پھر اس معاشرے پر آپ ایک بوجھ کی صورت زندہ رہنے کے لئے تیار رہیں … کیونکہ اپنی ہی نظر میں آپ خود پر بہت جلد بوجھ بن جائیںگے . ورنہ اس دوڑ میں خود کو شامل کرلیں تاکہ فنا کی طرف دوڑ کا یہ سفر آپ کے لئے بھی آسان ہو جائے … کیونکہ فنا ہی ابن آدم کی تقدیر ہے ، ایسے یا ویسے ہماری یہ دوڑ فنا کی طرف ہی ہمیں لے جا رہی ہے – کل میں قران کی تفسیر پڑھ رہی تھی تو طوفانِ نوح کا ذکر پڑھتے ہوئے مجھے ٢٠١١ میں جاپان میں آئی سونامی کی تباہی یاد آ گئی میں نے رات یو ٹیوب پر اس سونامی کے منظر دیکھے … بارہا آپ نے بھی دیکھے ہونگے … میں جب بھی کوئی ایسا منظر دیکھتی ہوں قادرِ مطلق کی طاقت اور ترقی کے با مِ عروج پر پہنچی ہوئی انسانیت کی بےبسی کا موازنہ کرنے سے باز نہیں آتی … پھر بھی ہم انسان اپنی چھوٹی چھوٹی کار گزاریوں پر کتنے مغرور ہوتے ہیں اور وہ مسبب الاسباب کتنا پروقار اور لا تعلق … بہر حال مجھے سونامی کی وہ ویڈیو دیکھ کر ایک اور احساس بھی ہوتا ہے ، کہ آج سا ری انسانیت … خواہشات ،آسائش ،شہرت ،طاقت سیاست کی ایسی بپھری ہوئی موجوں کی زد میں ہے کہ وہ اپنی پوری طاقت لگا کر مخالف سمت میں دوڑ لے یہ موجیں کہیں نہ کہیں اسے آ ہی لینگی اور وہ تنکے کی طرح اس میں بہہ جائیگا اور بہہ رہا ہے … اس لئے ان کی زد میں وہ بھی آ جائینگے جو بھاگنا نہیں چاہتے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ان بپھری ہوئی موجوں پر بند نہیں باندھنا ہے . آج یہ برقی آلات ہماری زندگی میں شامل ہوکر ہمیں ایک ایسی ہی سونامی کے زد میں ڈ ال چکے ہیں جسکے کچھ فائدے ہیں تو ایک بڑا نقصان بھی ہے … انھوں نے ہماری زندگی سے عورت مرد ،چھوٹا بڑا ، شریف رذیل ،گھریلو بازارو، اصلی نقلی کی سا ری تخصیص مٹا دی ہے، رشتوں کے تقدس کو ختم کر دیا ہے ، اعتبار کو ریزہ ریزہ کر دیا ہے اور اوقات کو نگل لیا ہے . بس ہم بھاگ رہے ہیں اور اس بھیڑ میں کبھی کوئی مہربان ہاتھ ہاتھ میں آتا بھی ہے تو وہ اس افراط و تفریط میں جانے کب چھوٹ کر الگ ہو جاتا ہے . مگر ہم اس مہربان چہرے کے لئے رک نہیں سکتے کیونکہ بھاگنا ہی اب مقدر ٹھہر ا .تباہی سے بچنے کے لئے تباہی کی طرف