(امین صدرالدین بھایانی – اٹلانٹا، امریکا)
یہ 70ء کی دھائی کے اواخر کے برسوں کا ذکر ہے۔ ہم کراچی میں کسٹم ہاوئس سے ذرا سا ہی آگے موجود “کے-پی-ٹی” گراونڈ کے عین سامنے والے علاقے پنجابی کلب، کھارادر میں رہا کرتے تھے۔ اکثر اپنے والد مرحوم صدرالدین بھایانی کے ہمراہ اُن کی لال ہنڈا ففٹی موٹرسائیکل پر سوار ہو کر قریبی واقع نیٹی جیٹی پل پر سے ہوتے ہوئے مولوی تمیزالدین خان روڈ (ایم ٹی خان روڈ) جسے عرف عام میں اولڈ کوئینز روڈ کہا جاتا تھا، ہمارا گزر ہوا کرتا تھا۔
والد مرحوم کو نہ جانے وہ سڑک کیوں اتنی اچھی لگتی تھی کہ اکثر و بیشتر بلکہ روز ہی اپنی سواری وہیں سے گزارا کرتے۔ سچ پوچھیئے تو ہم کو بھی وہ سڑک اپنی کشادگی، وہاں موجود قطار در قطار، بلند قامت، سرسبز درختوں اور سڑک کے بیچوں بیچ قائم رنگ برنگے، دلفریب و دلکش پھولوں سے لدھے سبز قطعات کے سبب بہت ہی بھاتی اور وہاں سے ابو کے ساتھ موٹرسائیکل میں اُن کے پیجھے بیٹھ کر کم و بیش ہر روز گزرنا بہت ہی بھلا معلوم ہوتا تھا۔
علاوہ ازیں اکثر ہم ابو کے ساتھ اسلامیہ کالج کے عین سامنے ایستادہ بڑے سے گلوب اور پھر ملحقہ کشمیر روڈ سے ہوتے ہوئے موٹر سائیکل پر براجمان ٹھنڈی تیز ہوائیں کھاتے گزرا کرتے۔ ہمیں وہ سب مقامات اور سڑکیں ایسے دیرینہ مہربان دوستوں کی مانند معلوم ہوتے تھے جو ہمیشہ اپنی باہیں وا کئے ہمیں خوش آمدید کہنے کو تیار کھڑے ہوں۔ اُن سب خاموش مگر اپنی خاموشی میں ہی بہت کچھ کہتے سنتے راستوں، سڑکوں اور مقامات سے گرزتے ہوئے محسن نقوی کے کہے یہ اشعار ہمارے ذہن کے دریچوں میں بازگشت کیا کرتے تھے۔
۔؎اِتنی مُدّت بعد ملے ہو!۔
کن سوچوں میں گم رہتے ہو؟
تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا
ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو؟
کون سی بات ہے تم میں ایسی
کیوں اتنے اچھے لگتے ہو؟
ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے
اپنی کہوں اب تم کیسے ہو؟
یہ 1980ء کی بات ہے۔ پاکستانی فلموں کے جغادری ہدایتکار نذرالسلام (دادا) مرحوم کی فلم ’’نہیں ابھی نہیں‘‘ 21 اکتوبر کو ریلیز ہوئی۔ یہ فلم دادا نے مشہور انگریزی فلم “سمر آف 42” سے متاثر ہو کر بنائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان میں لڑکپن کی حدود کو عبور کرکے نوجوانی کی پُر پیچ سرحدوں پر قدم دھرتے نوجوانوں کے جذباتی مسائل و کیفیات کے موضوع پر بنے والی اولین اور شاید ابتک کی آخری فلم ہے۔
ابو کو ہدایتکار نذرالسلام مرحوم کی سابقہ فلموں بطور خاص ’’آئینہ‘‘ کے سبب بہت ذیادہ امیدیں وابستہ تھیں۔ لہٰذا وہ اِس فلم کی ریلیز کے پہلے روز ہی ہم سب گھر والوں کو کراچی کے پلازہ سنیما لے گئے لیکن وہاں لگا ’’ہاوس فل‘‘ کا بورڈ دیکھ کر انہوں نے اپنی موٹر سائیکل کا رُخ موڑا اور لائٹ ہاؤس سنیما کا طرف چل دیئے اور پھر ہم سب نے یہ فلم لائٹ ہاؤس سنیما میں دیکھی۔
اب ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ اس فلم سے ابو کی وابستہ امیدیں پوری ہوئیں کہ نہیں؟ البتہ وہ دن اور آج کا دن، عرصہِ 35 سال بعد بھی ہم اس فلم اور اس میں شامل اخلاق احمد مرحوم کے گائے ایک گیت کے سحر سے نکل نہیں پائے۔
فلم کا ہیرؤ فیصل الرحمٰن (پاکستانی فلم انڈسڑی کے مایہ ناز سنیما ٹو گرافر مسعود الرحمٰن مرحوم کے صاحبزادے اور بھارتی اداکار رحمٰن مرحوم کے بھتیجے) اُسی اولڈ کوئینز روڈ، اسلامیہ کالج کے گلوب اور کشمیر روڈ پر اپنی بائیسائیکل پر لہرا لہرا کر یہ گیت گاتا ہےـ
۔؎سماں وہ خاب سا سماں
ملے تھے دل سے دل جہاں
کہاں لے کے چلا مجھے یہ دل میرا
وہ دن کبھی تو آئیں گے
مجھے گلے لگائیں گے
کبھی آتے ہوئے، کہیں آتے ہوئے
ہم انہی راہوں میں مل جائیں گے
یہ آتے جاتے چہرے مانا کہ ہیں حسیں
ایسے تو ہیں ہزاروں تجھ سا کوئی نہیں
لگتی ہے زندگی ادھوری
کیسے یہ دور ہوگی دوری
وہ دن کبھی تو آئیں گے
مجھے گلے لگائیں گے
کبھی آتے ہوئے، کہیں آتے ہوئے
ہم انہی راہوں میں مل جائیں گے
ہر پُھول منتظر ہے کب ہو تیرا کرم
کلیوں کو آرزو ہے چُومیں تیرے قدم
تیرے لیے تو کب سے راہیں
کھولے ہوئے ہیں اپنی باہیں
وہ دن کبھی تو آئیں گے
مجھے گلے لگائیں گے
کبھی آتے ہوئے، کہیں جاتے ہوئے
ہم انہی راہوں میں مل جائیں گے
وہ مہرباں نگاہیں اب تک نظر میں ہے
یہ رات دن ہمارے جن کے اثر میں ہیں
تیرے بناء تو یہ نظارے
ایسے ہیں جیسے غم کے مارے
سماں وہ خواب سا سماں
ملے تھے دل سے دل جہاں
کہاں لے کے چلا مجھے یہ دل میرا
وہ دن کبھی تو آئیں گے
مجھے گلے لگائیں گے
کبھی آتے ہوئے، کہیں جاتے ہوئے
ہم انہی راہوں میں مل جائیں گے
سرور بارہ بنکوی مرحوم کے لکھے، اخلاق احمد مرحوم کے گائے اس گیت کی موسیقی ہمارے آل ٹائم فیوریٹ مویسقار روبن گھوش نے مرتب کی تھی۔ آپ اس گیت کا ایک ایک مصرعۂ پڑھ لیں، چاہیں تو اس کے ویڈیو کا ایک ایک منظر دیکھ لیں۔ آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ جو باتیں ہم نے اس تحریر کی ابتداء میں قلمبند کی ہیں وہ ہو بہو شاعر نے اپنی شاعری میں اور فلم کے ہدایتکار نے پردہِ سیمیں پر کچھ اس طرح سے پیش کردی ہیں کہ جیسے یہ گیت سرور بارہ بنکوی نے نہ لکھا ہو، خود ہم نے ہی لکھا ہو اور اسے دادا نے نہ فلمایا ہو، خود ہم نے ہی فلمایا ہو۔
گو کہ اس گیت سے قبل بھی ہم اخلاق احمد مرحوم کے بےشمار مقبول گیت ریڈیو پاکستان کراچی سے سنتے اور سر دھنتے رہے تھے، لیکن اس گیت نے تو ہمیں اخلاق احمد مرحوم کا غلام بے دام قسم کا مداح بنا دیا۔ اب اخلاق احمد مرحوم کا گایا یہ گیت تھا، ہم تھے اور ابو کی ہنڈا ففٹی کی سواری تھی۔ ہم جب جب بھی ابو کے ہمراہ ان مقامات سے گزرتے، ہمارے ہونٹوں پر یہ گیت ہوتا اور ہم خود کو فیصل الرحمٰن کی طرح کوئی ہیرو گردانتے ہوئے اپنے کسی خیالی محبوب کے تصور میں غلطاں و پیچاں رہتے۔
قسمت کی خوبی دیکھئے کہ اس بات کے کچھ چھ ایک برس بعد ہمیں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی دوسری ملازمت اُسی اولڈ کوئینز روڈ پر بحریہ کامپلیکس کے عقب میں واقع لالہ زار ایریا میں قائم بیچ لگژری ہوٹل کے بلمقابل ایک عمارت میں قائم دفتر میں ملی۔
بس صاحب پھر کیا تھا، ہم تھے، اخلاق احمد مرحوم کا یہ گیت تھا اور ایم ٹی خان روڈ کی وہ رومان پرور فضائیں تھی۔ اب تو یہ گیت ہمارے لیے کچھ اور ہی معنویت کا حامل ہوچکا تھا۔ ہماری پشہ ورانہ زندگی کا آغازِنو تھا اور اب یہ گیت ہمیں مستقبل کی دبیز دھند میں اٹی راھوں اور اُن پر چل کر ملنے والی انجان منزلوں اور نہ معلوم کامیابیوں کی نوید سنایا کرتا تھا۔
۔؎تیرے لیے تو کب سے راہیں
کھولے ہوئے ہیں اپنی باھیں
وہ دن کبھی تو آئیں گے
مجھے گلے لگائیں گے
کبھی آتے ہوئے، کہیں جاتے ہوئے
ہم انہی راہوں میں مل جائیں گے
ایم ٹی خان روڈ کی اُن رومان پرور فضاؤں نے ہماری رومان پرور طبعیت کو مذید مہمیز کردیا اور اُن کیفیات تک ہماری رسائی میں اُن پانچوں کا برابر کا ہی تو ہاتھ تھا، موسیقار روبن گھوش، گلوکار اخلاق احمد، شاعر سرور بارہ بنکوی، ہدایتکار دادا اور اداکار فیصل الرحمٰن۔
آج 35 برسوں بعد بھی جب ہم اخلاق احمد مرحوم کا گایا ہوا یہ گیت سنتے ہیں اور کم و بیش روز ہی سنتے ہیں، تو دل و دماغ پر وہی دورِ نوجوانی کی کیفیات غالب آنے لگتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کے اب بھی یہ گیت ہمیں مستقبل کی دبیز دھند میں اٹی راھوں اور اُن پر چل کر ملنے والی نہ معلوم کامیابیوں کی نوید سناتا ہے۔
۔؎تیرے لیے تو کب سے راہیں
کھولے ہوئے ہیں اپنی باھیں
وہ دن کبھی تو آئیں گےمجھے گلے لگائیں گے
ممکن ہے کہ ہم نے اپنی ذات سے وابستہ یہ قصّہ سنا کر آپ سب کو شدید کوفت میں مبتلا کیا ہو لیکن کیا کیا جائے کہ ہم جب بھی اخلاق احمد مرحوم اور اوپر ذکر شدہ شخصیات کا تذکرہ کرتے ہیں، ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ قصہ ہماری زبان پر آ ہی جاتا ہے۔ بقولِ شاعر۔
۔؎ تیری نظر ہے، میرا دل ہے، کیا کیا جائے
جنوں، خرد کے مقابل ہے، کیا کیا جائے