نظم نظمیہ مشاعرہ 14 جون 2015

خیال کا رب ،،،،،،،،،،،،،،،،،،سدرا اافضل

موت کے بعد کئ سال یونہی پھرتا رہا
میرا خیال جسے موت کی تمنا تھی
پھر ایک دن اسے پانی میں ڈوب جانا پڑا
وہی خیال جسے جستجوئے فردا تھی
کئ برس کی مسافت کے بعد ایسا ہوا
وہی خیال کسی ذہن کا خیال بنا
وہ ذہن جسکے لئے زندگانی عنقا تھی
مگر وہ ذہن کئ بار یہ بھی سوچتا تھا
زندگی زندگی نہیں ہے اگر تو پھر یہ راہ و رسم طرزمعاشرت کیا ہے ؟ سرود شوق و جنوں حیرت و حسرت کیا ہے ۔؟
کئ متون ہیں معنی کی دسترس سے پرے
ھیں کتنے معنی متن کیلئے ترستے ہوئے
زندگی زندگی نہیں ھے اگر تو پھر خیال کو آداب آگہی کیا ہیں
انا کا کھیل رچایا ہے سنگ تراشوں نے
خدا بھی خود سا بنایا ہے سنگ تراشوں نے
میرے فہم سے پرے ہے یہ سنگتراش کا رب
کسی وہم کے قریں ہے یہ سنگتراش کا رب
خدا خدا ہے اگر تو یہ بات صاف ہے پھر اسے میرے کسی سجدے کی ضرورت ہی نہیں
اسے کسی کی عبادت سے علاقہ ہی نہیں ھے اسکی غرض امن و آشتی سکون و سرور
قرار جان و دل و نین و نفس و ذہن و شعور
مگر خیال جو میرے خیال کا جزو ہے
وہی خیال در خیال کون سمجھے گا
یہی سوال در سوال ۔ ۔ ۔ ۔ کون سمجھے گا؟

Leave a Comment