نظم نظمیہ مشاعرہ 14 جون 2015

سرخ ربن ،،،،،،،،،،،سبین علی

ہم محبتوں کو سوشل سٹیٹس کے ترازو میں تولتے
اور ڈسٹ بن میں پھینک دیتے ہیں
تحائف کھولتے ہی
برانڈ نیم چیک کیے جاتے ہیں
سرخ ربن کے طول جتنی منافقت
بالشت پر لپیٹی جاتی ہے
خلوص پیکینگ کے ساتھ
کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے.
اندر صرف ٹیگ زندہ بچتا ہے
میرے ہم جنس اپنی عمر بھر کی
جمع پونجی لگا کر مکاتبت کرتے
اور غلامی کا پروانہ خرید لیتے ہیں
تاکہ جسم جاں سے دال دلیے کا
سلسلہ چلتا رہے
لفظوں کی جنگیں
میٹھے ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہیں
جہاں چمکتا سچ
کالے سیاہ لفظوں سے شکست خوردہ ہو کر
مذمتی پٹیوں کا سنگھار کر کے
ممی بنا عجائب گھر کی زینت ٹھہرتا ہے.
ہمارے خواب نقل مکانی کرنے والے
پرندوں کی مانند
طویل اڑانیں بھرتے تھک جاتے ہیں
اور لکڑی کی پرانی دہلیز پر
منتظر آنکھوں میں دم توڑ دیتے ہیں.

Leave a Comment