نظم نظمیہ مشاعرہ 14 جون 2015

کیسا لگتا ھے ……انس اقبال

ایکدم
زندگی کا سمٹ جانا
خوشیوں کا مٹ جانا
ماضی کیسا لگتا ہے
گزرے لمحوں کی گرد
کیسے یادوں اور وعدوں پہ جم چکی ہے
اور ہم
اس حال کے آئینے میں
اک دوجے سے دور
کیسے جچ رہے ہیں
زندگی کے بھنور میں
کیسے موجزن ہیں
جیسے ایکویریم میں تیرتی ہوئی دو مچھلیاں
جنس تو وہی ہیں
مگر۔۔۔۔ کردار مختلف
جو
ایک دوسرے کو دیکھتی ہیں مگر
پہچاننا نہیں چاہتیں
کبھی ایک دریا تھا اس پار
جس کے وسیع سینے میں
ہمنوائی ہمسری تھی دونوں میں
اتنی وسعت کے بعد بھی پہچان تھی دونوں میں
اور اب
اس ننھے سے ایکیوریم میں
دونوں کتنے انجان ہیں
تو کیا ہو سکتا ہے
یوں ہی رہیں
رہیں گردش میں موجزن
اور کبھی جو چکر لگاتے
ہو جائے انجان ملاقات
تو ملیں بیگانوں کی طرح
آؤ مان کر دیکھیں!
اک ندی کے
دو کنارے ہوں جیسے
چلتے ہوں ساتھ
بیچ ۔۔ دھارے ہوں جیسے
اِدھر ہم، اُدھر تم
مگر کنارے مل نہیں سکتے!
کیسا لگتا ہے
یوں حقیقت آشنا ہو جانا
یوں کھو جانا۔۔۔

Leave a Comment