مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

( کشمیرکے معاصر اردو افسانوں کے تخلیقی رویّے (ڈاکٹر ریاض توحیدیؔ

وقت کا تصّور زمان و مکان کے تصّور سے ہی اپنی مخصوص شناخت قائم کرسکتا ہے اور زندگی اس مخصوص شناخت کو پہچان دینے کا سبب بنتی ہے . زمانے کے واقعات اور حادثات کے تجربات سے شعر و ادب کی تخلیق ہوتی ہے ‘کیونکہ جب کسی حساس ذہن پران حادثات و واقعات کے سنگین اثرات مرتسم ہوجاتے ہیں تو وہ مشاہداتی اور تجرباتی وسیلے کے بل پر اپنے تاثرات کو تخلیقی پیکر میں پیش کرتا ہے‘جس کو تنقیدی اصطلاح میں تخلیقی تجربہ کہا جاتا ہے ۔جس انسان کا تخلیقی شعور جتنا بلند ہوگا تو اس کا تخلیقی تجربہ بھی اتنا ہی توانا ہوسکتا ہے ۔تخلیقی تجربے کے توسّط سے ہی ایک تخلیق کار‘ ذات سے لیکر کائینات تک کے مسائل کی فکری وفنی ترسیل کرتا ہے .فکشن میں تخلیقی تجربے کی ترسیل کے رویّے کثیر نوعیت کے ہوتے ہیں تاہم ایک رویّہ یکساں طور پر فکشن میں نمایاں نظر آتاہے اور وہ تجربات اور مشاہدات کے زیر اثرذہنی وجذباتی کیفیات کے اظہار کا تخلیقی رویّہ ہے۔ ماحول کی تاثیریت تخلیقی رویّے پر اس قدر اثر انداز ہوتی ہے کہ تخلیق کار جس ماحول میں سانس لیتا ہے اس ماحول کی بازگشت ‘اس کی تحریر میں ضرور سنائی دیتی ہے۔سڈنی کیز(Sidney Keyes) ایک انگریز شاعر ہے۔جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے وہ اس قدر متاثر ہوا تھا کہ اس نے اپنی ایک نظم کا عنوان ہی’’جنگی شاعر ‘‘(War Poets) رکھ دیااورجس میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’میں وہ شخص ہوں جو الفاظ کی تلاش میں بھٹکتا رہا مگر میرے ہاتھ میں ایک تیر ہی لگا.‘‘
اس تناظر میں جب ہم کشمیر کے معاصر اردو افسانے کے تخلیقی تجربے اور رویّے کا مطالعہ کرتے ہیں تو سنہ ۲۰۰۰ سے تاحال ‘جو افسانے رسائل و جرائد اور کتابی صورت میں سامنے آئے ہیں ان میں مجموعی طور پرجو تجرباتی فضا چھائی ہوئی ہے وہ ہے خوف کی فضا‘یعنی ’’خوف‘‘ کشمیر کے معاصر اردو افسانے کا تخلیقی استعارہ بن گیا ہے ‘جومعاصر افسانوں کے عنوانات سے بھی ظاہر ہورہا ہے .جیسے’ ’درد کا مارا‘شہر کا اغوا‘گونگے گلاب‘‘(عمر مجید) ’’آگے خاموشی ہے‘سرخ بستی‘آسمان ‘پھول اور لہو‘‘(نور شاہ)‘’’نجات‘ رات اور خواب(مشتاق مہدیؔ ) ’’اعلان جاری ہے‘‘(غلام نبی شاہدؔ ) ’’یہ بستی عذابوں کی‘خواب و تقدیر‘مقتل‘‘(پروفیسر منصور احمد منصورؔ )‘اندھا کنواں(حسن ساہو)‘بہار آنے تک(جان محمد آزادؔ )’’ فساد‘لہوکی مہندی(پرویز مانوسؔ )‘ ’’کالے دیوؤں کا سایہ‘گمشدہ قبرسان‘‘(ڈاکٹر ریاض توحیدیؔ )‘’’سفیدجزیرہ‘‘ (طارق شبنم)’’فیصلہ‘لہو کا چراغ‘ مِلن(ایثار کشمیری).
کسی بھی تخلیق میں عصری صورتِ حال کا احساس کسی نہ کسی صورت میں قاری کے سامنے منکشف ہوجاتا ہے.کشمیر کے اردو افسانے میں بھی عصری عہد کے سیاسی‘سماجی‘معاشی اور معاشرتی صورت حال کی بھر پور عکاسی نظر آتی ہے.یہاں کے افسانوی ادب پر رومانیت کی جوفردوس ۱ نظر فضاچھائی ہوئی تھی ‘اس کی چاشنی اس وقت ختم ہو گئی جب ۱۹۹۰ ؁ء سے کشمیر میں خون آشام دور کی شروعات ہوئی اور جس کی وجہ سے یہاں کا نظام زندگی درہم برہم ہوگیا۔جن لوگوں کے ہونٹوں پر پیار و محبت کے گلابی گیت ہوتے تھے اُن کی سوچ پر کراس فائرنگ‘بم د ھماکے ‘ کُشت وخون‘کریک ڈاون اور گُمشدگی وغیرہ جیسی جنگی قسم کی خوفناک اصطلاحیں اور الفاظ چھا گئے.اس خوفناک ماحول نے یہاں کے شعر وادب کو بھی متاثر کیا اور اس میں ظلم و تشّدد‘ما ردھاڑ‘دکھ درد اور خوف وہراس کا اظہار صاف صاف نظر آنے لگا.بقول شاعر ؂
مجھے پریوں کی یہ جھوٹی کہانی مت سناؤ تم
میں اپنی آنکھ کے اندر کئی کوہ قاف رکھتا ہوں
(سہیل احمد)
یہ کوہ قاف جیسی ڈراونی صورتحال اُسں وقت قاری کی سوچ پر چھا جاتی ہے جب وہ کشمیر کے معاصر اردو افسانے کا مطالعہ کرتاہے۔اس دور کے افسانوں میں اس خوفناک صورتحال کی منظر کشی کن کن علامتوں اور استعاروں میں پیش ہوئی ہیں‘درجہ ذیل اقتباسات سے بخوبی عیاں ہوجاتا ہے:
’’یہ کونسی جگہ ہے.یہ کیسی خاموشی ہے.یہ ویرانی کا عالم‘یہ ڈر ا دینے والی خاموشی‘یہ مکان ‘یہ دُکانیں‘ یہ سڑکیں خالی کیوں ہیں؟ اس شہر میں رہنے والے لوگ کہاں چلے گئے ہیں۔۔۔۔۔شاید سب لوگ غائب ہوگئے ہیں.‘‘
(شہر کا اغوا‘عمر مجید)
’’لیکن وقت نے اچانک کروٹ بدلی‘کشمیر جو کھبی اپنی سندرتا‘خوب صورتی اور حسن کے ساتھ ساتھ پیار و محبت اور آپسی بھائی چارے کے لئے برصغیر کی تاریخ میں ایک بڑی اہمیت اور منفرد مقام کا حامل تھا‘نہ جانے کیوں اور کیسے بدصورتی کے ایک ایسے دلدل میں پھنس گیا کہ یہاں کی زندگئی مفلوچ ہوکر رہ گئی‘ سڑکیں خون آلودہ ہونے لگیں‘معصوم سینے چھلنی ہونے لگے…‘‘
(دلدل‘نور شاہ)
’’وہ میری آنکھوں میں دیکھ کر تلخی سے مسکرایہ.‘‘’’غلامی ایک ذلت ہے.احساس کا ایک ناسور ہے.روح کا ایک زخم‘ایک عذاب‘ایک ستم‘مسلسل غم ہے.میں اس غم سے نجات کی بات کررہاہوں.‘‘ (نجات‘مشتاق مہدی)
’’اس شہر کے بیچوں بیچ ایک بڑی شاہراہ ہے جو شاہراہ ستم کہلاتی ہے.یہ شہر کی قابل دیدشاہراہ ہے.اس شاہراہ پرخواجہ سگ پرست کی حکمرانی ہے اس لئے آدمی قید ہیں اورکتے آزاد.شاہراہ ستم کے ایک طرف آہنی پنجرہ ہے جس میں پیرو جوان قید ہیں.‘‘
(سند باز جہازی کی ڈائری.پروفیسر منصور احمد منصورؔ )
’’وہ ایک آفت زدہ بستی تھی.وہاں طلوع آفتاب سے لیکر غروب آفتاب تک جنازے اُٹھتے رہتے تھے.اس بستی میں موت کا رقص کئی برسوں سے جاری تھا.کبھی بچے اپنے نرم ونازک ہاتھوں سے اپنے بزرگوں کی لاشوں پر مٹی ڈالتے اور کبھی بزرگ اپنے ناتواں کندھوں پر اپنے جوان ۲ بچوں کا جنازہ اٹھاتے رہتے.ہر ایک اپنی مستعارزندگی کا فکر مند تھا.کوئی نہیں جانتا تھا کہ کب‘کہاں اور کیسے موت کی آغوش میں چلا جائے گا. ہر گلی سنسان اور ہر کوچہ ویران دکھائی دیتا‘صرف قبرستان آباد ہورہے تھے.‘‘
(جنازے‘ڈاکٹرریاض توحیدیؔ )
’’میں نے سن رکھا تھا کہ اس شہر میں موت بیچ چوراہوں پر رقص کرتی رہتی ہے.وہ ‘جسے جب چاہا اپنی آغوش میں لے لیتی ہے…بہرحال دل میں ابھی نہ مرنے کی تمنا لئے میں بھی ایک دن وہ شہر دیکھنے گیا.‘‘(سزا‘ایثار کشمیری)
کسی بھی تخلیق کا ر کے تخلیقی رویّے کی شناخت متعین کرنے کیلئے تخلیقی وجوہات اورسماجی منظرنامے کو ذہن میں رکھنا پڑھتا ہے۔یہ سماجی منظرنامہ ہی ہوتا ہے جو تخلیق کار کو ایسا مواد فراہم کرتا ہے جو اس کے تخلیقی تجربے سے کشیدہ موضوعات اورکرداروں کی ساخت گری کا بنیادی محرک بنتا ہے اور یہی محرکات شعر وادب کی تشکیل کا سبب بنتے ہیں. افسانوی ادب میں عصری سماجی و ثقافتی صورت حال کی ترسیل ہر دور میں ہوتی رہی ہے۔ آج بھی اس ترسیلی صورتِ حال کا مشاہدہ اُن افسانوں میں بخوبی نظر آتا ہے جو تقسیم ہندکے پس منظر میں رقم ہوئے ہیں۔ افسانہ کی تخلیق کو اگر حصار ذات کا ہی معاملہ ٹھرایں تو بھی یہ اشاعت کے بعد ذاتی حصار سے نکل کرسماجی مسائل ومعاملات کا تخلیقی ترجمان بن جاتا ہے۔اس تخلیقی ترجمانی کے پیش نظر جب ہم معاصرکشمیر کے اردو افسانے کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ پچھلی دو ڈھائی دہائیوں سے کشمیر جن آلام و مصائب سے گزر رہا ہے ‘اس کا اظہار یہاں کے افسانوی ادب میں علامتوں ‘استعاروں اور راست بیانیہ میں ہوتا آیا ہے۔ یہ یہاں کے افسانہ نگاروں کی تخلیقی جرأت مندی کا بین ثبوت ہے کہ انہوں نے اس پُرآشوب دور میں بھی معاشی و سماجی نظام کے استحصال ‘جمہوریت اور اسکولرزم کی کھوکھلاہٹ‘ علاقائی اور مذہبی تعصب‘ہجرت و مہاجرت کی کرب ریزی ‘سیاست کی فریب کاری ‘ بے لگام طاقت کی حیوانیت اور کشمیریوں کی مہمان نوازی اور آپسی بھائی چارے وغیرہ مسائل ومعاملات کو تخلیقی ترجیحات کاجامہ پہنادیا۔ان مسائل ومعاملات کا اظہار معاصر افسانہ نگاروں کی کسی نہ کسی تخلیق میں ضرور نظر آتا ہے‘تاہم چند اقتباس پیش خدمت ہیں:
’’اسی دوران سیاسی فضا میں اچانک ایک طوفانی بدلاو آنے لگا۔اوڑی کا لال پل جو برسوں سے اداس اور ویران پڑا تھا‘اس پر رنگ وروغن چڑھنے لگا۔
کاروانِ امن کے نام سے ایک بس سروس شروع ہوگئی جو بچھڑوں کو ملانے کا کام کرنے لگی۔حاکم دین بھی اُس پار جانے کے کاغذات حاصل کرنے میں جُٹ گیا۔‘‘
(فاصلے‘دیپک کنولؔ )
’’یہ جنگل ایک دیو قامت چٹان پر تھا اور بہت سا چلنے کے بعد اچانک ایسے راستے کی اور مڑتا تھا جہاں صرف داہنی اور بائیں جانب سورج کی روشنی آتی تھی‘ گویا پہاڑ کی قوی ہیکل چھت تلے ایک اور دنیا آبادتھی جو مکمل روشن تھی مگر جنگلوں کی بہتات اور کئی میلوں تک اٹھی آڑھی ۳ چٹان کے سبب اوجھل بھی تھی۔‘‘
(ساحلوں کے اس پار‘ترنم ریاض)
’’بس یہی خواب دیکھتے رہو…تم کیا سمجھتے ہو کہ حکومت کو اس سیلاب اور طوفان سے ہوئی تباہ کاری کے بجائے صرف تمہارے اس خستہ حال ہاوس بورٹ کی فکر ہوگی…سونہ جُو‘خود سوچو‘یہ حکومتیں ہم غریبوں کو صرف ووٹ کے دن یاد رکھتی ہیں.‘‘
(جہلم کا تیسرا کنارا‘زاہد مختار)
’’چونکہ یہ علاقہ شہر سے کافی دور تھا اور سہولیات سے محروم رہ گیا تھا.بستی کے آس پاس کوئی ڈسپنسری موجود نہ تھی اور نہ ہی کوئی معقول انتظام تھا . لہذا پرانے رسم ورواج کے مطابق علاج معالجہ تھا.اس معاملے میں کئی معزز اور ماہر عورتوں میں سے دایہ سلیمہ ہی واحد عورت تھی جو ایسا کام انجام دے سکتی تھی.‘‘
( سیندور کی لکیر‘شیخ بشیر احمد)
تخلیقی رویّے کی شناخت میں تصّور وتخیّل ‘جذبہ واحساس اور ادراک و عرفان کے ساتھ ساتھ تخلیق کار کی فکرو دانش اور قوت اظہار کے لوازمات بھی شامل ہوتے ہیں.ان فنی لوازمات کے تحت تخلیق کار کسی بھی خیال کو مناسب و موزوں الفاط اوراستعارات و علائم کے ذریعے اپنی انفرادی شناخت قائم کر پاتا ہے.یہ انفرادی شناخت اس وقت استحکام حاٖصل کر سکتی ہے‘ جب کوئی تخلیق کار اپنے عہد کی زندگی کے نشیب و فرازکی مناسب فنی تصویر کشی اپنی تخلیق میں کرتا ہے اورجس سے قاری کواس عہد کے سیاسی ‘معاشی اور معاشرتی منظرنامے کی تفہیم و تعبیر میں آسانی ہوجاتی ہے ۔اس پس منظر میں جب کشمیر کے معاصر اردو ادب کا سوال ذہن میں اٹھتاہے تواس ادب میں جنت بے نظیر کے حسین مناظر کے بدلے دردناک داستان ہی سنائی دیتی ہے.اس خوفناک صورت حال کو دیکھ کر اگر کشمیر کے معاصر اردو ادب کو المیہ ادب (Tragic Literature) کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہوگا.کیونکہ کشمیر کا ادیب ا ورشاعر بھی مابعد جدیدیت کے تناظر میں تخلیقی عمل کا آزادانہ رویہ اپناتے ہوئے حال کے متنوع مسائل و موضوعات جیسے ذہنی تناو ‘نفساتی ڈپریشن ‘ سیاسی موقع پرستی‘کرپشن ‘فرقہ پرستی اور پسماندگی ولاچاری وغیرہ کو فکری و فنی سطح پر اپنی تخلیق میں پیش کرتا ہوا نظر آرہا ہے اوریہ مسائل و موضوعات یہاں کے افسانہ نگاروں کے تخلیقی رویوں کااظہاری وسیلہ بن چکے ہیں‘ پروفیسر قدوس جاوید کے الفاظ میں:
’’یہ افسانے کشمیر کی عصری زندگی کے کلیدی استعاروں‘گولی‘چیک آوٹ‘گرینیڈ‘دھماکہ‘تلاشی‘بنکر اورکرفیو وغیرہ کو گرفت میں لیکربُنے ہیں.‘‘
(آج کا کشمیر اور اردو افسانہ‘پرفیسر قدوس جاوید)

— with

Leave a Comment