مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

پیسہ(ذیشان مُضطر)۔

۔
ھمارا سٹیٹس پوری طرح پیسے پر مبنی ھے۔ یعنی اگر آج اس لمحے آپ کی جیب میں پیسے موجود ھیں تو اس کا مطلب یہ ھے کہ آپ ایک بہت بڑی پریشانی سے محفوظ ھیں۔ فرض کریں آپ کہیں سفر پر نکلے ھوں، راستے میں آپ کی جیب کٹ جائے، آپ کے پیسے چوری ہوگئے اور آپ کے کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم کارڈز وغیرہ بھی غائب۔ اب کیا کِیا جائے ؟ سفر کیسے کریں؟ واپس جائیں یا آگے بڑھیں؟ زندہ رھنے کے لئے جس طرح آکسیجن اور پانی بنیادی ضرورت ھیں بالکل اسی طرح باقی تمام اشیاء بھی، جیسے خوراک، لباس اور مکان۔ آکسیجن اور پانی تو مفت مل جاتے ہیں مگر یہ باقی تمام اشیاء بالکل بھی مفت نہیں۔ یہ ایک المیہ ھے مگر ایک تلح حقیقت بھی، اور اس سے ھم انکار نہیں کر سکتے۔ ،
کچھ لوگوں کا خیال ھے کہ محبت اور خلوص وغیرہ مال و دولت سے بالاتر چیزیں ھیں۔ جی! بہت سی صورتوں میں ایسا درست ھے۔ جہاں محبتیں بے قیمت ھوں جہاں خلوص بے غرض ھو وھاں یہ نایاب فطرت پائی جا سکتی ھے مگر آئے دن ٹیلی وژن کی خبریں اور اخبار کی سرخیاں ہماری آنکھوں سے گزرتی ہیں اور ان میں بس یہی بیان ھوتا ھے کہ فلاں ماں نے غربت سے تنگ آکر بچوں سمیت نہر میں کود کر خودکشی کر لی، فلاں باپ نے غربت سے تنگ آکر بیوی بچوں کو قتل کر دیا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سارے واقعات اس بات کی ایک مضبوط دلیل ھیں کہ پیسہ ان دنوں (یا شاید ازل سے ھی)) رشتوں ناطوں سے اوپر کی چیز ھے۔ یہ نہ ھو تو نہ زندگی کی گاڑی چل سکتی ھے اور نہ ھی گھر قائم رہ سکتے ہیں۔
مجھے مضمون لکھنا نہیں آتا، اس گروپ میں مختلف مضامین پڑھے تو سوچا میں بھی کچھ لکھ دوں۔ گزشتہ دنوں میں یونیورسٹی کے امتحانات کے سلسلے میں گھر سے نکلا اور بارش کی آبشار نما بوندوں سے تیزی سے گزرتا ھوا سیڑھیوں تک پہنچا تو دیکھا موٹر سائکل ھی نہیں۔ خیال آیا وہ تو کل ایک دوست ضرورت کے تحت لے گیا تھا۔ گھڑی پر ٹائم دیکھا اور چھتری لے کر تیزی سے دوڑتا سڑک کی جانب بڑھا اور ایک لوکل گاڑی کو اشارہ کیا۔ واپسی پر اسی طرح ایک لوکل گاڑی میں سوار تھا۔ وہ ایک سٹاپ پر جونہی رکی تو معمول کے مطابق ایک بھکاری گاڑی کے نزدیک آیا۔ بھکاریوں سے متعلق عموماَ ھمارا نظریہ یہی ہوتا ھے کہ یہ لوگ اگر مانگنے کے علاوہ کوئی اور کام کر لیں، محنت مزدوری کر لیں تو عزت سے پیسے کما سکتے ہیں۔ ھم اپنی جگہ بالکل درست ھیں، مگر اس سلسلے میں حکومت کو بھی توجہ دینی چاھئے۔ وہ ان لوگوں کو روزگار کے مواقع فراھم کرے تبھی یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ایک شخص گاڑی کے دروازے پر آکر رُک گیا۔ بارش بھی تھم چکی تھی۔ وہ لباس اور وضع قطع سے مجھے بالکل بھی بھکاری معلوم نہ ھوتا تھا۔ پھر اس نے دیگر بھکاریوں کی طرح بھیک مانگنے کی کوشش کی “میری بیٹی ھسپتال میں داخل ھے، اس کے علاج کے لئے اتنی رقم چاھئے وغیرہ”۔ لیکن اس کا انداز اور نظروں کا نیچے جھکا ھونے سے میں سوفیصد یقین سے کہہ سکتا ھوں کہ وہ بھکاری نہ تھا بلکہ ضرورت مند تھا۔ اب میں “ھم” کا تذکرہ کرتا ھوں۔ ھم عوام کیسا رویہ رکھتے ھیں۔ لوگوں نے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کیا، جنہوں نے دیکھا تو وہ کچھ نہ بولے۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی دو خواتین نے سرگوشی میں ڈھونگیا ڈرامے باز جیسے الفاظ عطا کئے۔ اس کے بعد گاڑی کے کنڈکٹر نے اس شخص کو زوردار دھکا دیا کہ وہ پیچھے کیچڑ میں پھسلتا گیا اور گرتے گرتے بچا۔ ساتھ ھی اسے کھرے کھرے الفاظ بھی سنا دیئے، فالتو، نکما اور کام چور کے القابات سے بھی اسے نوازا گیا۔ اس کے بعد میں نے اس شخص کا جواب سنا تھا “آج میں جس تکلیف سے گزر رھا ھوں، میری دعا ھے کہ اللہ تجھے بھی ایسا وقت دکھائے۔ ” اور اس کی بات پر کنڈکٹر نے ھنس کر کچھ اور جملے کسے لیکن تب تک گاڑی چل پڑی تھی تیز روی سے چوک کو کراس کرتی آگے بڑھ گئی۔ اس سارے دورانیے میں مَیں کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہ رھا تھا، دماغ گویا سُن ھوگیا تھا۔ اس قدر غربت؟ اتنی مجبوریاں؟ کہ باشرف اور معزز لوگ بھیک مانگنے لگتے ھیں، کیا ان کی مدد کرنے والا کوئی بھی نہیں؟ ۔۔۔۔۔ گاڑی کچھ آگے نکلی تھی کہ میں نے اسی کنڈکٹر کو آواز دے کر رکنے کا کہا اور اتر کر چھتری کھول لی۔ اس کے بعد میں پیدل اس چوک تک واپس پہنچا اور دیر تک ادھر ادھر تلاش کی مگر وہ شخص دوبارہ نہیں ملا۔
اس دن میں انتہائی مایوسی کے عالم میں گھر پہنچا تھا۔ اگر میں اس شخص کی جگہ ھوتا، میرے پاس پیسے نہ ھوتے تو کیا یہ لوگ میرے ساتھ بھی ایسا ھی سلوک کرتے؟ یونہی کیچڑ میں دھکا دے دیتے? یا اگر اس کنڈکٹر کی ملازمت ختم ھوجاتی اور وہ فارغ ھوجاتا تو لوگ اس کے ساتھ بھی اسی طرح پیش آتے؟” آخر وہ کونسی ایسی کامن کموڈیٹی انوالو ھے اس سارے معاملے میں جس نے یہ تفریق کی ھوئی ھے۔۔۔۔۔ پیسہ جو ایک بہت بڑی حقیقت ھے۔ کاش ھم اس پیسے کا استعمال کریں، لوگوں کی مدد کرنے میں، ان کی مشکلات کا خاتمہ کرنے میں اور ایسے کاموں میں جن سے عوامی سطح پر فائدہ ھو سکے۔ لیکن ھم ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ھم بحیثیتِ قوم عیاش اور بے حس ھیں۔ ھمیں کسی کی کوئی پرواہ نہیں

Leave a Comment