گھر بیٹھے بیٹھے دنیا بھر کے حالات سے واقف ہونا ایک ایسی سہولت ہے جو گزشتہ صدی سے پہلے ممکن نہیں تھی۔ پرانے زمانے میں لوگ باہر سے آنے والے مسافروں کا انتظار کرتے تھے جو انہیں ان دیکھی جگہوں کی باتیں بتائیں، دور دراز کے قصے سنائیں۔ اِن داستانوں میں بڑی کشش ہوتی تھی اور لوگ عرصے تک ان کے سحر میں مدہوش رہتے تھے۔ تخیلات کی ایک دنیا آباد تھی جس کے مطابق دور دیشوں میں دودھ کی نہریں بہتی تھیں اور بیش قیمت جواہر راہوں میں عام پڑے تھے۔ انسانی فطرت ہے کہ ہر کوئی باخبر رہنا چاہتا ہے، سب کچھ جان لینا چاہتا ہے۔ موجودہ دور میں انسان کی فطری تسکین کے لئے میڈیا اور اخبارات نے یہ کرشمہ کر دکھایا ہے۔ اب لوگوں کو دور دیسوں سے آنے والوں کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ آج کے دور میں خبروں اور معلومات تک جو تیز ترین رسائی حاصل ہے وہ پہلے کبھی ممکن نہیں تھی۔ اس ترقی کا عروج یہ ہے کہ گھر سے باہر نکلے بغیر ہی اردگرد، ملک اور دنیا بھر میں ہونے والی سرگرمیوں سے آگاہی حاصل ہو جاتی ہے۔
فی الوقت اخبارات خبریں پہنچانے کے سستے اور تیزترین ذرائع میں سے ہیں۔ سولہ کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں خبروں کی کوئی کمی نہیں۔ پوری کائنات ایک توازن کے تحت قائم ہے، یہی توازن کامیابیوں اور ناکامیوں کے درمیان بھی ہے۔ جہاں سولہ کروڑ خوشیاں ہیں، وہیں سولہ کروڑ غم بھی ہیں۔ لیکن خبروں میں اس توازن کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ کوئی بھی اخبار لیجئے صفحات اغوا، حادثات، چوری، ڈکیتی،قتل، دھوکے اور فراڈ جیسی خبروں سے بھرے ہیں۔ ایک یکسانیت موجود ہے۔ ذہن میں پہلا خیال آتا ہے کہ یہ تو اخبار ہی ٹھیک نہیں ہے۔ یہاں صحیح رپورٹنگ نہیں ہوتی۔ بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ پورا اخبار ہی اغوا، قتل، اور چوریوں کی خبروں سے بھرا ہوا ہو، کہیں کوئی امید بھری خبر نہ ہو، کسی کامیابی، کسی خوشی کی داستان نہ ہو۔ یہی صورتحال دوسرے اخبار میں بھی ہے۔ تمام اخبارات میں موجود خبریں ایک ہی پیٹرن کی لگتی ہیں۔ مایوسی، ناکامی اور بدحالی جیسے پیٹرن لئے ہوئے۔ مختلف اخبارات میں صرف نام اور تاریخ کا فرق ہوتا ہے باقی وہی چوری کی کہانیاں، فاقوں اور خود کشی کے واقعات، موت، تکلیف اور اذیت جگہ جگہ بکھری ہوئی۔ ایسے جیسے پورا ملک کسی آفت کا شکار ہو۔ اپنے اردگرد بکھری ہوئی خبروں کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے ہم چور، ڈاکوؤں، اچکوں اور قاتلوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اگر ہم نے کسی کو قتل نہیں کیا تو کوئی ہمیں قتل کر دے گا یا اگر ہم نے چوری نہیں کی تو کوئی ہمارے گھر چوری کر لے گا۔ یہ صورتحال صرف اخبارات تک محدود نہیں ہے بلکہ نیوز چینلز بھی اسی قسم کی صورتحال کو پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مشہور ٹی وی سیریز زاویہ میں اشفاق احمد ایک لکڑہارے کا قصہ یوں بیان کرتے ہیں۔
“چھانگا مانگا کے ایک لکڑ ہارے نے انارکلی سے گزرتے ہوئے اپنے دوست سے کہا کہ ان دکانوں کے درمیان اور نالی سے ذرا اوپر ایک جھینگر کی آواز آ رہی ہے۔ اب اس کے ساتھ اس کا ایک شہری دوست تھا جس کی بھی ہماری طرح گاڑیوں اور دیگر شور سن کر سن سکنے کی صلاحیت وہ نہیں رہی تھی جو ایک تندرست انسان میں ہوتی ہے۔ لکڑ ہارے کی بات سن کر اس شہری نے جل کر کہا کہ اس ہنگامے اور شوروغل میں کیسے ممکن ہے کہ کوئی چلتے ہوئے ایک جھینگر کی آواز سن سکے۔اس نے ضرور اسے دیہاتی ہونے کا طعنہ بھی دیا ہو گا اور کوسا ہو گا کہ تم لوگ پتہ نہیں کہاں سے اُٹھ کر آ جاتے ہو۔ تمہیں کیا پتہ شہر کیسے ہوتے ہیں اور تمہارے اب کان بھی بجنا شروع ہو گئے ہیں۔
اس نے اپنی جیب سے ایک روپے کا سکہ نکالا اور اسے ہاتھ ذرا اونچا کر کے سڑک پر اچھال دیا۔
خواتین و حضرات اس نے جیسے ہی وہ سکہ سڑک پر پھینکا سوگز اِدھر اور سو گز اُدھر راہگیروں نے چلتے چلتے پیچھے مڑ کر اور آگے ہو کر اسے دیکھا۔ اس سکے کی آواز پر ایک لڑکا تو بوٹوں کی دکان کے اندر سے باہر نکل کر گردن گھما کر دونوں جانب دیکھنے لگا۔ سکے کی آواز سن کر اس کو ڈھونڈنے والے لوگ یقیناً سکے کی آوازوں کے ماہر نہیں تھے اسی طرح وہ لکڑہارا بھی یقیناً جھینگروں کا کوئی ایکسپرٹ نہیں تھا بات یہ تھی کہ اس کے کان جھینگروں کی آواز سننے اور ڈھونڈنے کے عادی تھے۔یہی صورتحال ایک ماں کے ساتھ بھی ہے۔ وہ کتنی ہی گہری نیند میں کیوں نا ہو، باہر آنے والے طوفان کی آواز اور بجلی کی کڑک اس کی نیند نہیں توڑ سکتی لیکن اپنے بچے کی ایک ہی آواز میں وہ جاگ جاتی ہے۔ جبکہ باہر طوفان کی موجودگی میں بھی وہ خاموشی محسوس کرتی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔۔ یہ کھوج کی بات ہے ہم جس آواز اور چیز کی تلاش شروع کر دیں ہمیں وہ ملنا شروع ہو جاتی ہے، سنائی دینا شروع ہو جاتی ہے اور ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ہر طرف سے یہی آواز آ رہی ہو۔ کسی سیانے کا قول ہے کہ زندگی میں کچھ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس کے لئے باقی سب چیزوں کی قربانی دے دی جائے۔۔۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر ہم خوشی کی تلاش کریں گے اور اس کی راہ میں آنے والے کانٹوں کو نظر انداز کر دیں تو ہمیں ہر طرف خوشی ہی ملے گی۔ یہی بات منفیت کے لئے بھی سچ ہے اگر ہم اپنا مقصد حیات منفیت کا حصول بنا لیں تو ہمارا حاصلِ زندگی منفیت ہی ہوگی اور راستے میں آنے والی خوشی بھی کچھ معنی نہیں رکھے گی۔”
بات طویل ہو گئی۔ اب موضوع کی طرف آتے ہیں۔ اتنی ساری مثالوں کے بعد اخبارات میں موجود خبروں کی یہ وجہ سمجھ آتی ہے کہ ہم سب نے اپنے اوپر منفیت طاری کر لی ہے۔یہ کیفیت چند لوگوں تک محدود نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔ اخبارات، نیوز چینلز کے لئے خبریں لانے والے بھی ہم میں سے ہی ہیں۔ وہ کسی الگ دنیا کے باسی نہیں ہیں۔ ان کے پاس بھی وہی نظریں، وہی کان ہیں جو ہمارے پاس ہیں۔ ایک اچھی خبر کے ساتھ ایک بری خبر کی موجودگی شاید صورتحال کو بہتر کر دے لیکن اجتماعی طور پر ہم منفی باتیں ڈھونڈنا، جاننا اور دینا چاہتے ہیں۔ ہم ڈھونڈ ڈھونڈ چھپی ہوئی برائی کو سب کے سامنے لاتے ہیں نتیجتاً سامنے موجود اچھائی دیکھنے سے ہماری آنکھیں محروم رہ جاتی ہیں۔
اس اجتماعی منفیت کا اثر اس درجے تک پہنچ چکا ہے ہر دوسرا شخص ہمیں مجرم، دھوکے باز یا کسی جرائم پیشہ گروہ کا رکن نظر آتا ہے۔ گلیوں میں دن بھر آواز لگا کر سبزیاں بیچنے والا عادی مجرم لگتا ہے جو باسی اور مہنگی سبزیاں تو بیچتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی موقع ملنے پر قتل کرسکتا ہے۔ گھر آ کر کام کرنے والی ماسی کسی مجرموں کے گروہ سے تعلق رکھتی ہے جو کسی بھی دن آ کر ڈاکہ ڈال سکتے ہیں۔ یا پھر اگر ہم کسی کام سے باہر نکلیں گے تو یا تو ہماری گاڑی چھین لی جائے گی، یا ہمارا کسی سے ایکسیڈنٹ ہو جائے گا یا ہم کسی بس یا ٹرک کے نیچے آ کر کچلے جائیں گے۔۔۔ ہمارے تخیل کا محور یہی باتیں رہتی ہیں۔ ہمیں یہ نہیں خیال آتا کہ دن بھر شدید گرمی کے موسم میں گلیوں میں آواز لگانے والا شخص ضروری نہیں مجرم ہو، وہ رزق حلال کمانے کے لئے محنت کرنے والا مزدور ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس کی سبزیاں باسی اور مہنگی نا ہوں بلکہ گرمی کی شدت سے مرجھا گئی ہوں اور وہ انہیں منڈی کے نرخ پر ہی دے رہا ہو۔ گھر میں کام کرنے والی ماسی ہمارے گھر کو اپناگھر سمجھ کر چمکاتی ہو۔ اسی طرح زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے جب وقت پورا ہو جائے تو گھر بیٹھے بھی آ سکتی ہے اس کے لئے ضروری نہیں کہ گھر سے باہر جائیں تو ہی حادثہ ہو۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسائل دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں بھی ہیں۔ وہاں جیلیں اور ان میں قیدیوں کی موجودگی اس بات کی گواہی ہیں کہ جرم وہاں بھی ہوتے ہیں۔ وہاں بھی دھوکے، فراڈ، غبن ہوتے ہیں۔ حادثوں میں لوگوں کی موت ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ ناکامیاں ان کے معاشرے میں زندگی کا ایک حصہ ہیں۔ تو پھر ہمارے ہاں اس طرح کی خبروں اور باتوں پر اتنا زور کیوں۔ یہ شاید ٹیوننگ کی بات ہے۔ جیسے ریڈیو کو جس فریکوئنسی پر ٹیون کیا جائے وہ صرف اس فریکوئنسی کے سگنل ریسیو کرتا ہے جبکہ ارد گرد کتنی ہی مختلف فریکوئنسیز کے سگنل موجود ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے اردگرد بے انتہا مایوسی اور ناکامی کی موجودگی کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ ہم اپنے کانوں کو مایوسی کے ٹیون کر رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمیں خوشی کے نغمے سنائی نہیں دے رہے۔