انسان ،دنیا میں اللہ کا نائب ہے ۔ انسان کو یہ مقام اُس علم کی وجہ سے دیا گیا ہے ۔جو اللہ نے اُسے عطا کیا ہے ۔علم شعور کی بنیاد ہے ۔علم کے بغیر شعور اور شعور کے بغیر انسان کا تصور محال ہے ۔دنیا میں علم حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں مگر انسانوں نے سب سے زیادہ علم کتابوں سے حاصل کیا ہے ۔انسان سیکھنے کے عمل کے دوران مختلف مدارج سے گزرتا ہے ۔ہر انسان اپنے اردگرد کا مشاہدہ کرتا ہے ۔اور اس مشاہدے کو جذب کرتا ہے ۔چیزوں کا ادراک بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے ۔اور اس ادراک کا اظہار صرف چند لوگ کر سکتے ہیں ۔ جو لفظوں کے ذریعے اپنے محسوسات اورتجربات کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔لہذالفظ لکھتے وقت بہت سوچ بچار کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایک جملہ تمام مشاہدات اور تجربات کا نچوڑ ہوتا ہے ۔اس لیے کتاب ایک مستند علم کا ذریعہ ہے۔آج کل الیکڑانک میڈیا کا استعما ل بہت عام ہو چکا ہے ۔جو بہت سی معلومات کا خزانہ دیتا ہے ۔یہ معلومات اکثر غیر ضروری ،بے مقصد اور عام طور پر قابل استعمال نہیں ہوتیں۔لیکن کتاب کسی مخصوص موضوع پر مستند علم حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔کتاب کی اہمیت آج بھی اُتنی ہی ہے جتنی آج سےدو سو سال پہلے تھی ۔۔جو قومیں زیادہ مطالعہ کرتیں ہیں ۔اُن میں شعور اور آگہی پیدا ہوتی ہے
اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ قومیں جنہوں نے ترقی حاصل کی اُن میں نہ صرف مطالعے کی عادت بہت زیادہ رہی ہے ۔ بلکہ لائبریریوں کی تعداد بھی زیادہ رہی ہے ۔قرطبہ شہر میں 70 کے قریب لائبریریاں موجود تھیں۔ امریکہ کی صرف ایک لائبریری میں ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد کتابیں موجود ہیں۔اس وقت 18کروڑآبادی کے ملک پاکستان میں صرف 90بڑی لائبریاں ہیں۔اور ان میں سے 20سے زائد یونیورسٹیوں کی ملکیت ہیں جہاں بیرونی طالب علم یاعام آدمی کی رسائی ممکن نہیں۔ باقی تمام لائبریریاںملک کے چند بڑے شہروں میں واقع ہیں جن سے صرف متعلقہ شہری ہی استفادہ کر سکتے ہیں۔ان میں موجود کتابیں پرانی اور بوسیدہ ہو چکی ہیں۔اکثر لائبریاں ایسی ہیں جہاں برسوں تک کوئی نئی کتاب نہیں آتی۔ آج جبکہ پاکستان کی سب سے بڑی لائبریری میں صرف 4 لاکھ کتابیں ہیں اور ان میں بھی اکثریت قدیم کتابوں پر مشتمل ہے۔لہٰذا ملک میں لائبریریاں نہ ہونے کی وجہ سے قارئین کو ہر کتاب خریدنا پڑتی ہے جو ہرقاری کے بس میں نہیں۔ کتابوں کی قیمت کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان میں کتابوں کی قیمت دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ یہاں بازار میں موجود ایک عام کتاب کی قیمت عموماً ایک مزدور کی پورے دن کی اجرت کے برابر ہوتی ہے۔اسی وجہ سے مطالعہ کو ایک مہنگا شوق سمجھا جاتا ہے۔
اگر ہم ماضی میں دیکھیں تو مطالعے کی تحقیق بتاتی ہے کہ ایک دور میں پاکستان میں مطالعے کا رجحان بہت زیادہ تھا ۔اس کی ایک بڑی وجہ یقینًا یہ ہو سکتی ہے کہ اُس وقت الیکڑونک میڈیا اتنا طاقت ور نہیں تھا ۔ٹی ـوی چینل اتنے زیادہ نہیں تھے اور لوگوں کے پاس وقت گزارنے کے لیے کوئی اور ذرائع نہ تھے سوائے کتاب کے مطالعے کے ۔وہیں ایک اور وجہ یہ ہے کہ انسان کی قدروقیمت کا معیار اُس کے علم اور مطالعے پر قائم کیا جاتا ہے ۔جو شخص جتنا صاحبِ ذوق ہے،علم پرور ہے ،ادب شناس ہے ۔اتنا ہی وہ بلند معیار رکھتا ہے۔ مگر آج پاکستان میں مطالعے کے رجحان میں کمی آتی جا رہی ہے جس کی کئی وجوہات میں قاری کے رویے ،کتاب کی فراہمی کے وسائل میں کمی ،کتاب کی قیمت اور معیار ،اور سب سے بڑھ کرانسانوں میں مطالعے کی ترجیح اور ادراک کا نہ ہونا ہے۔انہیں آگہی نہیں کہ مطالعہ اِن کی زندگی کو کتنا بہتر کر سکتا ہے۔
آج کی اکیسویں صدی میں انسان میڈیا اور مادی ضرورتوں کے تابع ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل میں اُلجھ گیا ہے ٹیکنالوجی کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں ۔تاہم ٹیکنالوجی کتاب کا متبادل نہیں ہو سکتی ہے اور مطالعے کے بغیر انسان صاحبِ علم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی علم کے بغیر کوئی ترقی کر سکتا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا آج کا انسان ادب کا مطالعہ کرتا ہے ؟ اور خاص طور پر نوجوان نسل میں ادب کے مطالعہ کا رجحان ہے یا نہیں ؟؟؟