مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

( مادری زبان (احسان بلوچ

لفظوں کا مجموعہ ”زبان“ بیان و خیال، رابطے، یکجہتی، علم و ادب، فن و ثقافت اور شناخت کا باعث ہے تو وہیں مادری زبان انسان کی ابتدائی بول چال کا ذریعہ بھی ہے۔ بہت سے ماہرین نفسیات و عمرانیات کا کہنا ہے کہ بچہ چھ ماہ بعدماں کے پیٹ ہی میں لفظوں کی بنت سیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ پیدائش کے چھ ماہ کے اندر غوں غاں اور دیگر نامانوس لفظ بولنا شروع کر دیا ہے۔ نو ماہ کی عمر میں کچھ بنیادی حروف بولتا ہے اور ڈیڑھ سال کی عمر سے باقاعدہ بولنا شروع کر دیتا ہے۔ چونکہ بچپن میں کسی بھی بچے کی ابتدائی درسگاہ اس کی ماں ہوتی ہے اس لئے وہ اسے جس زبان میں لفظوں، چیزوں اور احساسات کی پہچان کراتی ہے اسے مادری زبان کہا جاتا ہے۔ ایک عالمی سروے کے مطابق دنیا میں 2581مادری زبانیں اس وقت اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ جبکہ یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق 1950ء سے لیکر اب تک 230مادری زبانیں ناپید ہو چکی ہیں جن کو بولنے والا اب کوئی نہیں ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت 48فیصد پنجابی، 12فیصد سندھی،10فیصد سرائیکی،8فیصد پشتو،8فیصد اردو،3فیصد بلوچی،2فیصد ہندکو, ایک فیصد براہوی جبکہ انگریزی اور دیگر چھوٹی زبانیں 8فیصد بولی جاتی ہیں۔ کسی ایک ملک میں سب سے زیادہ830زبانیں پاپوانیوگنی میں بولی جاتی ہے۔ دوسرے نمبر انڈونیشیا722جبکہ پاکستان اس حوالے سے 32ویں نمبر پر ہے جہاں 77زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اٹلس آف ورلڈ لینگویج ان ڈینجر2009ء کے مطابق پاکستان میں بولی جانے والی 35فیصد زبانوں کو خاتمے کاشدید خطرہ لاحق ہے جبکہ مادری زبانوں کو درپیش خطرے کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 28ویں نمبر پر ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب انسان غصے یا کسی درد بھری کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے تو عموماً اس کا اظہار اپنی مادری زبان میں کرتا ہے۔ بھلے کوئی شخص بہت سی زبانوں پر دسترس رکھتا ہو۔ چاہے وہ دن بھر لوگوں سے گفتگو کے دوران مختلف بولیاں بولتا ہو لیکن جب بنیادی احساسات و جذبات دوسروں تک پہنچانے کا لمحہ آتا ہے تو غیر ارادی و لا شعوری طور پر اپنی مادری زبان کا استعمال کرتا ہے جو اس شخص کا اپنی زبان سے مضبوط تعلق، قربت اور محبت کا واضح ثبوت ہوتا ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں جب دنیا سمٹ کر رہ گئی ہے اور خلقت اپنے اپنے حصار سے نکل کر مرکزیت کی جانب سمٹ رہی ہے وہیں مرکز سے مضبوط تعلق اور اس کا حصہ بنے رہنے کی غرض سے اپنی مادری زبانوں کو چھوڑ کر ایسی زبان اپنائی جا رہی ہے جسکا ہماری تہذیب و ثقافت اور ماضی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ اپنی بنیادوں سے ہٹ کر مرکز کا حصہ بن جانے کے باوجود بھی ”مس فٹ“ ہوتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے ایک بڑا مسئلہ کمیونیکیشن گیپ ہوتا ہے۔ ترقی کی دوڑ میں شامل ان میں سے بہت سے سوار ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی ماں بولی کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اس بات کو قطعی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہی ماں بولی ہی تھی جس نے انہیں بچپن میں احساسات اور دیگر چیزوں سے روشناس کرایا، جو ان کے ابتدائی ابلاغ کا ذریعہ بنی۔ جس نے مختلف جذبات کے اظہار کیلئے الفاظ دیئے اور یہی وہ ماں بولی ہے جو گھر، رشتہ داروں اور سماج کے درمیان جڑے رہنے کا باعث بنتی ہے۔
افسوس ناک امر ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے بیشتر افرادترقی یافتہ ممالک کی زبانوں کے پس منظر سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ ان پر عبور حاصل کرنے کیلئے تحقیق کرتے ہیں، کتابیں پڑھتے ہیں۔ ریسرچ و مختلف کورسز کرتے ہیں لیکن اپنی مادری زبان کی تاریخ و حقیقت کو جھٹلا دیتے ہیں۔ اس کے درخشاں ماضی کو کھوجنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔ یہ بات کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ماں بولی کو باعث شرمندگی سمجھنے کا زہر ہمارے ہاں تیزی سے سرایت کرتا جا رہا ہے۔پاکستان میں ہی مختلف مقامی زبانوں کی مثال لے لیجئے۔ ہزاروں سال پر مشتمل انتہائی خوبصورت اور تابناک تاریخی پس منظر رکھنے والی زبانوں کو جس پر ہمیں فخر کرنا چاہئے تھا آج کی نسل خاص طور پر نوجوان اس سے وابستگی و تعلق پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں اور اظہار رائے یا کلام کیلئے دیگر زبانوں کا سہارا لیتے ہیں۔حیران کن بات تو یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی محفل میں خالصتاً اپنی مادری زبان میں بات کر رہا ہو تو اسے دیہاتی ا ور پینڈو کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب گھروں میں بچوں کے ساتھ مادری زبان میں ہی گفتگو کی جاتی تھی۔انہیں مشکل الفاظ کے معنی و مطالب بتائے جاتے۔ کہاوتیں اور اکھانڑ سنائی جاتیں اور اپنی ماں بولی کی محبت نوخیز بچوں کی نس نس میں اتار دی جاتی۔تاہم آج بہت سے ماں باپ آپس میں تومادری زبان میں گفتگو کرتے ہیں جبکہ بچوں کے ساتھ اردو یا انگلش میں بات چیت کو ترجیح دیتے ہیں جس سے نہ صرف بچے کی مادری زبان سے انسیت و محبت پر فرق پڑتا ہے بلکہ خود بچے کا والدین سے قربت کا تعلق بھی اجنبیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی بچے کو 5سال تک مادری زبان سننے، بولنے کو ملتی رہے لیکن جونہی وہ سکول میں داخل ہو وہاں اس کا واسطہ اردو یا انگریزی سے پڑ جاتا ہے جس سے اس کی بنیادیں کمزور رہ جاتی ہیں۔ ماہرین تعلیم کہتے ہیں کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہی دی جانی چاہئے اس سے نہ صرف بچوں کو اپنے علاقے سے پیار ہوگا بلکہ بنیادی سطح پر ذہنی تربیت بھی ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں کچھ نام نہاد ترقی پسند لوگوں نے یہ نظریہ متعارف کرایا ہے کہ صرف زبان کی تبدیلی یا ترقی یافتہ اقوام کی زبان اپنا لینے سے ہی انسان ترقی یافتہ ہو جاتا ہے۔ اسی نظریئے کے تحت جب والدین خصوصاً ماں جو اپنے بچے کو ترقی یافتہ دیکھنے کی خواہاں ہوتی ہے اسے بچپن میں ہی مادری زبان کی بجائے انگلش و اردو کے الفاظ سکھاتی ہے تو اس غیر قدرتی طریقے سے نشوونما پانے والا بندہ جب معاشرے سے میل میلاپ کرتا ہے تو اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بچے شعور کی سیڑھیاں طے کرکے جب بڑے ہوتے ہیں تو اپنا تعلق مادری زبان سے جڑنے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ اگر انہیں با امر مجبوری کہیں اپنی ماں بولی میں بات چیت کرنی بھی پڑ جائے تو اپنا مدعا بیان کرنے کیلئے انہیں مناسب الفاظ نہیں ملتے مجبوراً دیگر زبانوں سے لفظ مستعار لیے جاتے ہیں۔ اس بات کا ایک اور تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ جب کسی زبان میں دیگر زبانوں کے لفظ شامل ہونے لگیں تو اس سے آہستہ آہستہ اک نئی زبان جنم لیتی ہے جو پرانی زبان پر اپنا رنگ چڑھاتے چڑھاتے مکمل غالب آ جاتی ہے۔ چنانچہ پرانی زبان متروک ہو کر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کی بیشتر متروک شدہ زبانوں کا وجود اسی طرح مٹا تھا۔ مادری زبان میں علم و ادب کی ترویج و ترقی اور فن و ثقافت کا اظہار نہ ہونا بھی اس زبان کے مٹنے کا باعث بنتا ہے۔
مادری زبان سے تعلق و محبت فطری امر ہے کیونکہ اس کی بنیادوں پر آپکے ماضی کی بہت سی حسین یادوں کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اپنی ماں بولی سے والہانہ عقیدت ایک عالمگیر سچائی ہے۔ اسی عقیدت کی وجہ سے عالمی سطح پر مادری زبان کا عالمی دن منا کر اپنی ماں بولی سے بے انتہا محبت کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ دیار غیر میں رہنے والوں کو جب آس پاس کہیں بھی کوئی اپنی ماں بولی بولنے والا نہیں ملتا تو وہ لوگوں کے بیکراں ہجوم میں بھی خود کو تنہا محسوس کرتا ہے اور یہی چیز اسے اپنی زبان کے انتہائی قریب لے آتی ہے۔ سچ کہتے ہیں کہ کسی چیز کے دور چلے جانے یا خاتمے کے بعد ہی اس کی قدر و قیمت اور اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پردیس میں رہنے والے لوگ اپنی مادری زبان بولنے کیلئے ترستے ہیں اور اگر انہیں کہیں اپنی ماں بولی بولنے والا مل جائے تو یہ اس کی راہ میں پلکیں بچھاتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس جو لوگ اپنوں میں موجود ہوتے ہیں وہ اپنی ماں بولی کی حقیقی قدرو قیمت کو جھٹلاتے ہیں۔

— with

Leave a Comment