مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

( لخت لخت یادوں کے درمیان:چندساعتوں کی بازیافت…(اشہر ہاشمی

سیدمنیر نیازی کے بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش بہت مشکل ہے۔ ایک کوشش کر کے میں نے اپنی کاپی میں کچھ لکھ رکھا ہے مگر وہ ناکافی ہے کیونکہ نیازی پر لکھنے کا مطلب ہوا ایک پورے عہد پر ایک نظر۔ اردو صحافت کے 200 برسوں کی تکمیل کا جشن منایا جا رہا ہے ۔ اس میں 20 فیصد ایسا ہے جو نیازی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔وہ ایک عہد ہیں۔ ایک لیجنڈ،ایک دبستان اور ہر لحاظ سے لائق تقلید ۔
میرا ان کا عمل ساتھ صرف 12سال کا ہے مگر 1980 سے 1992 تک کا یہ عہد 10سال پہلے شروع ہوا اور ابھی حال تک جاری رہا۔ان کے انتقال تک۔میرے ساتھ نیازی کے تعلقات بہت برے سے بہت اچھے تک آئے۔ بہتری کی جانب یہ سفر ان کی نیکی کی وجہ سے مسلسل جاری رہا۔بولتے تو وہ ٹیڑھا ہی تھے مگر دل کے بہت اچھے تھے۔سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ تعلقات نبھانا جانتے تھے۔اپنے سینئر کی حیثیت سے میں نے انہیں قبول کرنے میں کافی وقت لیا۔کچھ تو خود میرے مزاج کا ٹیڑھ مانع تھا اور کچھ ان کی بد دماغی بھی شامل تھی مگر برسوں ساتھ رہنے کی وجہ سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ وہ مصلحت سے واقف نہیں تھے۔ جو مناسب سمجھا کہا جو مناسب سمجھا کیا۔ سماج کا کوئی جائز ناجائز دباؤ قبول کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے سر اٹھا کر جیتے رہے۔ مگررہے بادشاہوں کی طرح۔ کپڑے نفاست سے پہنتے تھے۔ جوتا ہمیشہ چمچماتا رہتا تھا۔ باہر نکلتے تو بس یا میٹرو کی بجائے سیدھے ٹیکسی لیتے تھے۔کھانے کے معاملہ میں بھی نفیس۔جس سے دوستی ہو گئی عمر بھر کیلئے ہوئی۔آزاد ہند ایک بڑا ادارہ تھا۔ اس سے وابستگی کلکتہ اس کے نواح اور پڑوسی ریاستوں تک یکطرفیہ رسائی کا بندوبست کر دیتی تھی۔نیازی کو بنگال، بہار ، اب کے جھارکھنڈ اور اڑیسہ تک اردو والے کسی نہ کسی درجہ تک جانتے تھے۔ یہ ان کی طاقت تھی۔قاری سے اچھی طرح وابستہ رہنے کا ان کا شوق ان کے کام میں جھلکتا تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ نیازی کے نام سے کہیں کوئی اسکینڈل وابستہ نہیں ہوا۔کہیں کوئی شکایت تھی تو یہ کہ میری خبر نہیں چھاپی یا میری غزل نہیں چھاپی۔ کسی کو دھوکہ دیا، کسی کی جیب پر ہیاتھ ڈالا ، کہیں سے کچھ اٹھا لائے ۔۔۔۔۔ ایسا کچھ نہییں۔۔۔۔صحافت میں کار گزار صحافی رہتے ہوئے بے داغ کیریئر گزارنا کٹھن کام تھا نیازی نے یہ کام آسانی سے کیا۔
آزاد ہند میں اصل کرتا دھرتا
سید منیر نیازی کے حوالے سے کسی کو کچھ کہنا واجب نہیں ہے۔ آزاد ہند میں نیازی صاحب بادشاہوں کی طرح رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب احمد سعید ملیح آبادی نے انہیں پروڈکشن میں مکمل با اختیار ؂بنا رکھا تھا۔ شائد اتنا طاقتور بنانا بھی درست نہیں تھا کیونکہ انتظامیہ کے خلاف غصہ بھی نیازی پر ہی نکلتا تھا۔ جس کا کام زیادہ ہے وہ نیازی سے خفا، جس کا محنتانہ کم ہے وہ بھی نیازی سے ہی ناراض۔ دیر کر کے آنے والے اور جیسے تیسے کام سمیٹ کر وقت سے پہلے بھاگ جانے والے کی جواب دہی نیازی کو ہی کرنی پڑتی تھی۔ جسے شکایت ہے اس کا سیدھا ٹکراؤ نیازی سے ۔ایک طرح سے ملازمین اور انتظامیہ کے درمیان بفر کی حیثیت۔یہ رول نیوز ایڈیٹنگ سے بھی زیادہ سخت تھا۔ احمد سعید صاحب نیازی کے کام کوئی مداخلت نہیں کرتے تھے۔شائد کسی کے کام میں نہیں۔اشتہارات اور سرکولیشن کے شعبوں کے لوگ سیدھے ان کو جواب دہ تھے یا ان کے منجھلے صاحب زادے انور سعید خاں کو۔۔پریس پوری طرح انور کے ذمہ تھا مگر کہیں کوئی گڑبڑی ہے تو گرفت نیازی کی۔ شائد اس لئے بھی کہ 1980 کی دہائی آ تے آتے نیازی کا مرتبہ بڑا ہو گیا تھا۔ مالی مرتبہ کی بات نہیں کرتا۔ میں نے ان 35 برسوں میں نیازی صاحب سے کبھی نہیں پوچھا ، انہوں نے کبھی نہیں بتایا۔ شائد ہمارے درمیان یہ موضوع کا گفتگو تھا ہی نہیں۔
پڑھنے پر زور۔فکشن پر پوری توجہ
اردو والوں کیلئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اردو فکشن کا نیازی سے بڑا کوئی اور قاری نہیں ہوگا اور ان سے کبھی فکشن پر کوئی بات کی نہیں کی گئی۔ اپنے آپ میں گم رہنے والے بہت سے افسانہ نگاروں اور ناول نویسوں میں سے کبھی کسی نے نیازی کے پاس بیٹھ کر اپنی افسانوی تخلیقات پر لن ترانی کی جرات کی ہوتی تو اسے معلوم ہو سکتا تھا کہ ایک اچھا قاری کیا سوچتا ہے۔ادھر کا 50 سال کا فکشن نیازی نے نصاب کی طرح سے پڑھا تھا یعنی بعض کتابوں کی دو دو بار خواندگی کی تھی اور اس کے بعد کسی کو دان کر دیتے تھے۔سید محمد اشرف، انور خاں وغیرہ ان کے پسندہدہ افسانہ نگاروں کی فہرست میں بہت دیر سے آئے۔موجودہ عہد کے بزعم خود بڑے فکشن رائٹرس کے ذکر پر نیازی صاحب مسکرا کر رہ جاتے تھے۔شاعری سے کوئی شغف نہیں تھا مگر اچھا کلام پڑھتے ضرور تھے۔یہ پڑھنا کس حد تک ضرورت سے زیادہ تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہاں دہلی سے یواین آئی کی نوکری چھوڑ کر جانے کے ارادہ انہوں نے اسی سوال کے ساتھ ظاہر کیا تھا’’ میں یہ افسانے اوسر ناول کتنی بار پڑھوں گا۔؟‘‘۔ اوب گئے تھے۔ ایسے بہتوں کو میں ڈینگ مارتے سنا ہے کہ کم از کم 50 فیصد ادب یو میں نے پڑھ ہی رکھا ہے لیکن نیازی کی زبان سے کبھی ایسی کوئی بات نہیں نکلی۔البتہ کوئی خاص تحریر زیر غور آئی تو ان کی رائے سے کھلا کہ ان کی پڑھی ہوئی ہے۔یہاں دہلی میں ان کو میرے یہاں کچھ نیا پڑھنے کو مل رہا تھا ۔جو کتابیں میں نے اب تک چھوڑ رکھی ہیں ان سب میں نیازی صاحب کے فلیگ ان کے گزرنے کے اشاروں کے ساتھ موجود ہیں۔دہلی میں انہیں آفس جانے اور پڑھنے کے سوا کوئی کام نہیں تھا جب کہ کلکتہ کی زندگی مجلسی تھی اور شائد اسی مجلسی زندگی کا حسن انہیں یہاں سے واپس لے گیا۔میں نے ایک موقعہ پر ف۔س۔اعجاز سے کہا کہ نیازی کو آپ لوگوں نے دہلی میں نہیں رہنے دیا۔ اصل میں اعجاز اور سعیدالزماں ، ظہیر انور ، استاد محترم حضرت قیصر شمیم اور مولانا حکیم عرفان الحسینی اور کچھ دوسرے لوگوں کی زندگی میں بھی بڑا خلا آیا تھا۔ اسے پر کرنے کی صورت یہی تھی کہ وہ نیازی صاحب کو یاد کرتے تھے اور دہلی سے نیازی صاحب کا رشتہ مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہوتا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا ہیجان ایسدا تھا کہ دن رات کے بیچ نیازی صاحب کو دینے کیلئے وقت ہی نہیں تھا۔آفس میں ساتھ ڈیوٹی ہوتی تو میں گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر تک ساتھ ہوتا تھا ۔ اس کے بعد کے 16 گھنٹوں میں تو کہاں ، میں کہاں؟
انتقال کی خبر
بعض اوقات کسی سچ کا بیان بہت کٹھن ہوتا ہے۔28 اگست کو کلکتہ سے فہیم انور کا ایک ایس ایم ایس آیا۔آج ہماری ٹیم کا ایک اور ممبر کم ہو گیا۔دوپہر کا وقت تھا۔ میں سو کر اٹھا ہی تھا۔جی سائیں سے ہو گیا۔ فہیم کو فون کیا وہ ریسیو نہیں کر سکے۔میں انقلاب اور راشٹریہ سہارا کو چھوڑ کر دہلی کے سارے اردو اخبارات منگاتا ہوں مگر کسی میں کوئی ایسی خبر شائع ہونے کی امید نہیں تھی جس کا تعلق میری ٹیم کے کسی فرد سے ہو۔ یہاں تو ایم اے عالم گیر کے انتقال کی خبر بھی مشکل سے چھپی جب کہ وہ دہلی کی صحافتی برادری کا ایک سرگرم حصہ تھے۔تھوڑی دیر میں ظفر انور نے فون کیا اور بتایا کہ نیازی صاحب کے انتقال کی خبر ان کے ہندوستان ایکسپریس میں بھی چھپی ہے۔خبر دیکھی اور اس کے بعد سے جو کیفیت ہے ، بیان سے باہر۔کچھ لکھنا چاہا چند سطروں سے آ گے نہیں بڑھ سکا۔۔۔پورے 4 ہفتے ہو چکے ہیں ۔ اس پر یقین یہ نہیں ہوتا۔ خوب دکھا ہوا ہے دل۔ لکھوں گا۔ نیازی صاحب کے ساتھ میرا تعلق اپریل 1980 سے ابھی جولائی تک رہا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہاں سے شروع کروں۔بس اتنی بات ہے کہ نیازی صاحب تقریباََ گھر کے فرد ہوچکے تھے۔جولائی میں بھی ان سے جو بات ہوئی وہ مریم کی ضد پر۔ دکھ بھرا معاملہ ہے مگر دلچسپ بھی ہے۔ 27 جولائی کو سابق صدر عبدالکلام کے انتقال کے بعد والا دن تھا۔میں دیر تک سوتا ہوں۔ اٹھا تو دوپہر تھی۔ چائے، ناشتہ دوائیں دینے کے بعد مسز نے پوچھا کہ آپ نے ابی [ ان کے والد]سے کب سے بات نہیں کی ؟
میں نے کہا ’’تمہاری بات روزہو جاتی ہے پھر کاہے کا سوال۔ ‘‘
کہنے لگیں ’’وسیم بھائی [ جناب محمد وسیم الحق ، ایڈیٹر اخبارِ مشرق ]سے آخری بار کب ملے ؟ کب بات کی؟ ‘‘
بتایا’’پچھلے سال ستمبر میں۔‘‘
پھر سوال آیا ’’ماسٹر صاحب [حضرت قیصر شمیم ] کو کب سے فون نہیں کیا؟
’’ بہت دن ہو گئے۔ ویسے ابھی اپریل/مئی میں مونو کی شادی میں کئی بار مل کر آیا ہوں۔ ‘‘
تب سوال آیا’’ نیازی صاحب کی خیریت کب سے نہیں پوچھی؟‘‘
اور میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔نیازی صاحب سے بات ہوئے سال بھر یا اس سے زیادہ ہو چکا تھا۔مریم نے فون لا کر دیا اور کہا کہ ابھی بات کیجئے۔ انہوں نے مجھ سے بھی بات کی، مسز سے بھی ۔تفصیل کسی اور موقعہ کیلئے ۔یہاں اس طوالت کی ضرورت اس لئے پڑی کہ نیازی صاحب بچوں سے بھی گھل مل گئے تھے۔قیامِ دہلی کے دوران ان کے اور قریب ہونے اور اس انسان کو دیکھنے کا موقعہ ملا جس نے صحافت کیلئے اپنی پوری زندگی قربان کر دی ۔یہاں تک کہ اپنی فیملی پر بھی ضرورت بھر توجہ نہیں دے سکے۔خوب دردمند ہونے کے باوجود قسمت کی ہر چوٹ خندہ پیشانی سے اٹھائی۔ ملال صرف اس کا ہے کہ نیازی کو اس وقت از کار رفتہ قرار دیا گیا جب اردو صحافت کو گوگل ٹرانسلیٹ صحافت کے اس انحطاط پذیر دور میں ان کے تجربہ کی زیادہ ضرورت تھی۔خبروں کی باکمال ایڈیٹنگ اور چست سرخیاں ہی نیازی کا اکلوتا سرمایہ نہیں تھیں۔وہ مضامیں بھی بہت سوچ کر لکھتے اور موضوع سے انصاف کرتے تھے۔ میناکشی پورم کو رحمت نگر بنانے کے جشن میں واحد صحافی منیر نیازی کی انحرافی آواز تھی جس نے اس پورے عمل کو ہلاکت خیزٰ قرار دیا تھا اور یہ پیشین گوئی کی تھی کہ کنورشن کو نئی جہت ملے گی اور تب جشن آ پ نہیں اغیار منائیں گے۔ خبروں کے ترجمہ کو نیازی کو تخلیقی عمل بنا دیا تھا۔کہاں کہاں کون کون سے گوشے شمار کئے جائیں۔کلکتہ سے مشہور ڈرام نگار اور انکور کے ایہڈیٹرکمال احمد کا بار بار اصرار آ ارہا ہے۔کئی اور لوگ نیازی پر مضمون مانگ رہے ہیں لیکن نیازی کوئی فرد تھوڑٰے تھے پورا دبستان ہیں ۔دفتر کے دفتر چاہئیں ان کے بیان کیلئے اور میری ہر روز تیزی سے گرتی ہوئی صحت بھی سنبھلنے کا تقاضا کر رہی ہے۔شائد ایک ساتھ نہیں جستہ جستہ کچھ لکھ سکوں مگر لکھنا ہے۔۔۔ ان برسوں کو پھر ایک بار جینا ہے جن برسوں میں ایک صحافی نے آنکھیں موند کر اپنا سب کچھ اردو صحافت کیلئے گنوایا مگر آکر کو اپنے میدانِ عمل سے دور ایک گاؤں میں آخری ہچکی لی۔

Leave a Comment