مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

صحافت ، سیاست ،ادب اور ہم ناہید اختر


ہم نے اخباروں میں باقاعدہ صحافت کبھی نہیں کی ۔ لیکن فیس بکی صحافت و سیاست ہمیشہ جم کر کی ۔۔۔۔۔کبھی دوسروں کے چھکے چھڑائے تو کبھی اپنے ہاتھوں کے طوطے اڑائے ۔
سیاست نے جب بھی آواز دی تو عملی تو نہیں البتہ قلمی جہاد کے لیئے ہر لمحہ موجود پائے گئے ، ایک زمانہ میں شوق ،شہادت رکھنے کے باوجود اس ناگہانی سے اندر خانے کچھ کچھ ڈرے ڈرے سے بھی رہتے تھے ۔ اس لیئے عملی کی بجائے قلمی جہاد کی راہ لی کہ زیادہ سے زیادہ لفظوں سے گھائل ہوں گے مگر جسمانی طور پر کسی بارہ بور یا 9 ایم ایم بندوق کی گولی وولی یا اسی سے کچھ ملتی جلتی آفت بم وغیرہ سے تو محفوظ رہیں گے ۔۔مگر برا ہو تبدیلی افکار و اقدار کا ، کہ اب اہل قلم کو قلمی آم سمجھ لیا گیا ہے اور مخالفین و متاثرین نادیدہ و ندیدہ دشمنان روزانہ کی بنیاد پر ایک دو کو رگڑنے لگ گئے ۔۔۔۔۔۔اب تو کچھ لکھتے ہوئے دنماغ بیسیوں بار غیر محسوس سنسر نافذ کرتا ہے اور قلم کو جیسے مرگی نما دورے پڑتے ہیں لکھنا موافقت میں ہوتو سر مخالفت کے لگ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔خیر کبھی کبھی تو ڈر ڈر کر بالاخر بالکل ہی نڈر ہوجاتے ہیں اور مذہبی رہنماؤں کی طرح اپنے بجائے دوسروں کو کفن پہنا کر خود ساختہ ملک اور دین دشمنوں کو للکارتے رہتے ہیں ۔
تو صاحبان دین و دنیا ۔ ہم کبھی صحافت ، کبھی سیاست اور کبھی انھی کی ایک سوتیلی تعلق دار ادب سے راہ رسم بڑھاتے گھٹاتے رہتے ہیں ، کچھ عرصہ تو نثری دورہ پڑتا ہے تو افسانہ سے لیکر انشائنیہ ، فکاہیہ اور اختراعیہ سب لکھ ڈالتے ہیں اور جب لوگوں کو کامل یقین آجاتا ہےے کہ ہم نثر نگار ہیں تو یکایک ہمیں اپنی بھولی بسری و بچھڑی شاعری یاد آجاتی ہے ، بس پھر کیا ۔۔۔۔چار چھ ہفتے نظموں اور غزلوں کا شغل چلتا ہے اور ہم شاعری کی سند حاصل کرکے یکدم کسی انہونی اور ناگہانی تبدیلی کے خوف سے سیاسی پیشن گوئیوں اور طوطائی فال نکالنے لگتے ہیں ،،،،حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہماری سیاسی پیشن گوئیاں اکثر درست بھی ثابت ہوجاتی ہیں ۔
جب اپنا ضمیر اپنے کچھ کیئے دھروں پر زیادہ تنگ کرنے لگے تو معاشرے کو نوک قلم پر رکھ لیتے ہیں اور پھر اس کی ایسی کی تیسی پھیر دیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ تمام معاشرہ کرپٹ ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ماسوائے اپنے آپ کے ۔۔۔۔۔یہ کچھ ہنر قدرت کی عطا اور کچھ اسی معاشرے نے بخشے اور پالش کیئے ہیں ، جن کے برتے پر ہم امن کے صحافی ، رنجیدہ شاعر اور سنجیدہ نثر نگار کہلاتے ہیں ۔اگرچہ اس گمان کی تردید بھی کی جا سکتی ہے ، لیکن ہم تردیدی بیانات اس لیئے نہیں جاری کرتے کہ پھر وہی تصدیقی حلف نامے یا اعتراف بنا دیئے جاتے ہیں ، اس لیئے دنیا جو کچھ کہتی ہے ، ہمیں ٖغرض نہیں ۔ کبھی کبھی ہمیں فیس بک پر رہتے ہوئے اور قلمکار ہوتے ہوئے بھی اصول پسندی کا مختصر دورانیہ کا دورہ پڑ جاتا ہے ، جو اکثر جان لیوا ہوتے ہوتے جان بخش دیتا ہے ۔ آپ ہی کہیئے اگر آپ لکھنا بھی چاہتے ہیں اور جنگل میں اپنی سلامتی کے بھی خواہاں ہیں تو لومڑی اور شیر نما دو ہاتھ اور دو پائے سے بیر مول نہیں لیا جا سکتا ۔ جیسے دریا میں رھ کر اگر کرتے ہی مگر مجھ چھاپ لیتا ہے ۔ سو ہم نے بھی اصول پسندی کی چھوٹی چھوٹی تختیاں اور کتبے اپنے ایک پرانے بوسیدہ سے بکس میں چھپا رکھے ہیں ۔ جو صرف موقع کی مناسبت سے نکالتے ، جھاڑتے پونچھتے اور فیس بک وال پر لٹکا دیتے ہیں

Leave a Comment