’’پُرامن ہندوستان‘‘ میں دن ہوگئے کسی کو مُطلق’ سِوِل سوسائٹی‘ کی دہائی دیتے ہوئے نہیں سنا تھا۔ ’پرُامن ہندوستان‘ میں رشوت اور بدعُنوانی جیسے’قابلِ قدر‘ مسائل کی تو بات ہی چھوڑیئے انسانی حقوق کی صریح بےحرمتی،ماورائے عدالت قتل،فرضی پولس انکاؤنٹر،فوجی جَبر عصمت دری ،زندگی اور موت سے جڑے سنگین ترین مسائل پربھی سِوِل سوسائٹی کومدعو کرنے والےخال خال ہی ،بھولے بھٹکے ،کبھی کبھارسنائی دیئے اور۔۔۔۔اورچارسُوترقی کے اس شورشرابے میں’’کون سنتا ہے بھلا رام کہانی میری۔۔۔۔اور پھر وہ بھی زبانی میری‘‘ کی طرح وہ بھی رام کہانی بن گئےکیونکہ کوئی ایک جامع سول سوسائٹی جس کی کوئی ایک مَرئی شکل ،شناخت اورکردارہوبظاہرہمارےتاریخی شعورمیںوجود نہیں رکھتی۔ہندوستان میں سول سوسائٹی سیاسی جماعتوںاور ان کے بغل بچوں،مذہبی تنظیموں اورسماجی ومعاشی طبقات کے اعتبار سے بٹی ہوئی ہے۔ فرقہ پرستوں کی اپنی الگ سول سوسائٹی ہےاوربشر دوستوں کی الگ ۔۔۔۔ مردوں کی الگ،خواتین کی الگ اورزَنخوں اور ہجڑوں کی بھی ایک الگ سول سوسائٹی ہے۔
عموماًمُتمدِّن سماج( سول سوسائٹی) جمہوری نظام،آئینی ادارے وغیرہ جیسے الفاظ اور اضافی اصطلاحات کی بازگشت ’پرامن ہندوستان‘ میں کم اوراُس سے باہر’پُرفساد‘ شورش اور حاشیہ زدہ ریاستوں مثلاً ناگالینڈ،آسام، منی پوراور جموں وکشمیروغیرہ میں زیادہ سنائی دیتے ہیں اور مذکورہ بالاریاستوں میں آئے دن نہ یہ کہ حال ہی میںہندوستان میںاناہزارےکی’حل مشکلات ٹیم‘ کی دریافت یاپیداکردہ غیرمرَئی،غیرفَعّال اورمجہولِ مطلق سول سوسائٹی کودرخشاںجمہوری مظالم کے کریہہ ترین مناظردیکھنے کی صَلائے عام دی جاتی ہےبلکہ ’ہم ہندوستانیوں‘ کےنیم خوابیدہ ’نصف سیاہ‘ ضمیرکوبھی جھنجھوڑنے کی سعی ناکام کی جاتی ہے،ہم سے پوچھا جاتا ہے ’آپ کی سول سوسائٹی کیا کررہی ہے ؟کیا اس کے پاس آنکھ ،کان اور دل نہیں ہے؟ اورپھر ہم چکمکاکراپنی سول سوسائٹی کے بارے میںبے یقینی اور بے خیالی میںحیرت واستعجاب سے خود سے پوچھنے لگتے ہیں ہمارے یہاں سول سوسائٹی ہے ؟؟؟ ہے!!!!ہے تو پھر کیسی ہے!!!آنکھ کان ہیں یا پھر لولی لنگڑی ہے!کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نتیجے پرپہونچتے ہیں کہ ہمارے یہاں سول سوسائٹی ہے،آنکھ کان ہیں،اچھی بھلی صحت مند ہے بس دِل نہیں ہے بے ِحس ہے۔۔۔۔فریکچرڈ کنفیوزڈ سوسائٹی! جس کی فعالیت ،اہمیت ،ریلیونس اورمجہولیت پرشورش زدہ ریاستوں میں آئے دن دانشورانہ بحث ہوتی ہے اور کیا بحث ہوتی ہوگی اس کا اندازہ آپ علامہ اقبال کی زبان میں لگاسکتے ہیں ؎ بھروسہ کرنہیں سکتے ’غلاموں‘ کی بصیرت پر۔۔۔اورچونکہ مذکورہ بالاریاستوں کے نوجوانوں کاشمار’ہم ہندوستانی مردانِ حُر‘ آزادمردوں میں نہیں کرتے اس لئے ان کی فکر اوربصیرت کی کیا حیثیت! خیر اس تذکرہ ’’غیر ‘‘پر غالبؔ برسبیل شکایت گلہ کر رہے ہیں ؎ ہے مجھ کو تجھ سے تذکرہ غیر کا گلہ۔۔۔۔ہرچند برسبیل شکایت ہی کیوں نہ ہو۔
مندرجہ بالاسطورمیں سول سوسائٹی کا ذکر عبث جوکہ ناگزیرتھامحض اس لئے ہوا ہے کہ رشوت کے خلاف آفاقی جنگی مہم کے علمبردارساتویں ککشا(جماعت)پاس کشن بابو راؤہزارے عرف انّا اور ان کی ٹیم نے، جس میں دوبھوشنان( شانتی اور پرشانت بھوشن) شامل ہیں،جن لوک پال بل پرمرکزی حکومت کے نمائندوں کے ساتھ سلسلہ وار مذاکرات کے ’یکطرفہ‘ ناکام ہونے پر سرکارکو یرغمال بنانے کی کوشش میں زبانی جنگ کے دوران سول سوسائٹی کومتحرک کرکے ’راستے پرلانے‘ کی دھمکی دی ہے۔انَّاکے ایماندار اور راست باز ہونے پر راقم الحروف کوکوئی شبہہ نہیں ہے لیکن ان کے کچھ ہوش ربا بیانات اورخمارآلود اقدامات جسےترقی پذیرشہری مزاج کےساتھ دہقانی بدمذاقی قراردیاجاسکتا ہے ان کی نیت کو دائرہ تشکیک میںڈال رہے ہیں۔بےنقاب بابارام دیو کی حمایت میںبناسوچے سمجھے حکومت کےساتھ ایک طے شدہ میٹنگ کا بائیکاٹ کرنا، اور وہ بھی ایک ایسے واقعہ کے لئے جس کے بارے میں اب تک بھی کوئی بات صاف نہیں ہو پائی ہے کہ وہ کوئی تحریک تھی یا ’یوگا شبیر‘ اور اس کے بعد انا کا یک روزہ انشن اور وہ بھی گاندھی سمادھی پرنیز یہ بیان کہ تین دن اور ’انشن‘ پر بیٹھتے تو سرکار گرجاتی،اگر سرکارنے ان کے مطالبات تسلیم نہیں کئے تو سول وار(خانہ جنگی) شروع ہوجائے گا اور وہ اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے اور یہ کہ بل پر ریفرنڈم کرایا جائے اور یہ کہ ۱۶اگست کو وہ پھر انشن پربیٹھیں گے،ایک ایسےآدمی کی تصویرپیش کررہے ہیں جسے ففٹین منٹس فیم(۱۵منٹ کی شہرت)کچھ زیادہ ہی راس آگئی ہےاوروہ اب ہروقت اپنے ’حواریوں‘کے ساتھ ٹی وی اسکرین پر نظرآنا چاہتا ہے۔کم ازکم یہ اقدامات اور بیانات اس شخص کی تصویر توبالکل نہیں پیش کررہے ہیں جسے ہم کچھ ماہ قبل اناہزارےکےنام سے جانتےتھے۔یہاں پر انّا کو غلط فہمی سے نکلنے اور کچھ باتیں ذہن نشین کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اول تو یہ کہ وہ کوئی جے پرکاش نارائن یا مہاتما گاندھی نہیں ہیں،انشن پر بیٹھنے سے حکومت نہیں گرتی،ممکن ہےبرطانوی راج میں ستیہ گرہ کاکچھ اثر انگریز حکومت پر پڑا ہو لیکن اب عدم تشدد کا تصور ایک فیشن ایبل تصور سے زیادہ کی وقعت نہیں رکھتا،بھوک ہڑتال سےآدمی کمزور ہوتا ہے حکومت نہیں . جب نکسلائٹ وغیرہ)اپنی جان دے کر بھی اپنی بات نہیں منواپاتے ہیں تو انشن اور بھوک ہڑتال سے بھلا کیا ہوناہے. علاوہ ازیں انا کوبابارام دیو کے حشر سے کچھ سیکھنے اور اپنی اس خوش فہمی سے کہ ان کے انشن سے سول وار شروع ہوسکتا ہے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ساتویں درجہ پاس اس ایماندار کاشت کار سے یہ امید کرنا کہ وہ سول سوسائٹی اور سول وار کی پیچیدگی سے واقف ہوگا اپنی عقل سلیم اور فہم وفراست کے ساتھ جبر وزیادتی ہے۔اس بیان کوانا کی جاہلانہ معصومیت قرار دے سکتے ہیں کہ وہ پڑھے لکھے آدمی نہیں ہیںلیکن ایک ۷۴ سال کا معمرشخص اتنا بھی معصوم نہیں ہوسکتا جتنا کہ بتانے اور بنانے کی کوشش کی جارہی ہےاور سول سوسائٹی اور سول وار کو سمجھنے کے لئے معصومیت کی نہیں دانشورانہ شعور کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ بلاشبہہ انا کے پاس نہیں ہے۔ انّا کو یہ بات معلوم ہونی چاہیئے کہ ہندوستان میں سول وار اُن جنگ زدہ ریاستوں میں شروع نہیں ہواجہاں ہندوستانی فوج کے بوٹوں کی بھیانک چاپ پچھلے پچاس سال سے سنائی دے رہی ہے اور پرامن ہندوستان کی تو بات ہی کیا کریں۔ بابری مسجد کی شہادت،۱۹۹۳ کے بم دھماکے اور گجرات فساد جیسے واقعات ہمارے ملک کی درخشاں تاریخ اور جمہوریت پر ایک بدنماداغ ضرور ہیں لیکن ’یہ داغ اچھے ہیں‘۔
انا ہزارے ٹیم نے ایک اور انتہائی احمقانہ تجویز سامنے رکھی ہےجسے سن کربے ساختہ غالبؔ یاد آجاتے ہیں ؎ حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں۔ انّا اور ان کی روشن دماغ ٹیم کی ذہنی بے اعتدالی کی یہ روش اگر برقرار رہی تو بہت ممکن ہے کہ کوئی ’ نوحہ گر‘ بھی ساتھ رکھنا پڑجائے۔ہزارےٹیم کے اہم رکن ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن کہتے ہیں کہ جن لوک پال بل پر عوام سے ریفرنڈم کرایا جائے اور انہوں نے اپنی تجویز کی تائید میں یہ دلیل بھی دی ہے کہ سوئزرلینڈمیں آئے دن ریفرنڈم ہوتے رہتے ہیںتو یہاں کیوں نہیں۔انا تو خیر زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اسلئے ان کی زبان اگر پھسل جاتی ہے یا اگر وہ کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری ڈی راجہ کو اے راجہ سمجھ بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں ’’ڈی راجہ جیسے سیاستداں ملک کو لوٹ رہے ہیں ‘‘ تووہ قابل عفوودرگزرہیں لیکن پرشانت بھوشن؟ یہ توخود سپریم کورٹ کے وکیل ہیں اور سپریم کورٹ کے سینئروکیل اور سابق مرکزی وزیر قانون شانتی بھوشن کے فرزند ارجمند ہیں،ان کو کیا کہیں۔اب اگر پرشانت بھوشن کو بھی یہ سمجھانے کی ضرورت پڑے کہ صاحب ہندوستان سوئزرلینڈ نہیں ہے،یہاں ریفرنڈم نہیں کرایا جاسکتا اورپھر اگرانھیں یہ یاد دلایا جائے کہ تقسیم وطن کے وقت ریفرنڈم نہیں کرایا گیا تھا(صرف محمد علی جناح اور ان کے چنددوستوں نےمسلمانوں کے لئے الگ ملک کا مطالبہ کیا اور اسے سارے مسلمانوں کا مطالبہ تسلیم کرلیا گیا اوربیل بکری کی طرح ہانک دیا گیا) اور ہاں کشمیر میں ریفرنڈم کراناباقی ہےتو عوام خود ہی یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ جب ہزارےٹیم کےہراول دستہ میں شامل جوان ذہنی طور پر اتنےمفلس اورمسکین ہیں تو ان کے طفیلی اورغیر متوازن دماغ سے جنم لینے والابچہ کتناتوانا،صحت مند اور عقلمند ہوگا۔اروند کیجری وال ٹھیک کہتا ہے کہ یہ لوک پال بل نہیں بلکہ ’جوک پال‘ بل ہے لیکن انہیں بھی یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اسے’ جوک پال‘ حکومت نے نہیں بلکہ ٹیم ہزارے نے بنایا ہےاور واقعتاً یہ’ جوک پال‘ بل ہی ہےاور ہم اسے’ جوک پال‘ ہی سمجھ رہے ہیں۔ٹیم ہزارے نے جن لوک پال بل کاجومسودہ تیار کیا ہے اور جس کی ایک کاپی راقم الحروف کےپاس محفوظ ہے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد بغیر کسی الجھن اور کنفیوژن کےاگرکسی ایک نتیجہ پر پہونچا جاسکتا ہے تووہ یہ کہ لوک پال( ٹیم انا کے مداح اسے’جوک پال‘ پڑھ سکتے ہیں) عہدہ کے لئےملک میں سردست انَّا سے زیادہ کوئی معقول شخص نہیں۔دیوانے کو اک حرف دل آویز بہت ہے۔انا اپنی گل کاری وحشت کا صلہ شائد حرف دل آویز کی صورت چاہتے ہیں۔
آیئے اب جن لوک پال بل پر بحث کرلیتے ہیں۔اس بل کو Magnify کیا جارہا ہے،اور اخور بخور کے ساتھ محترم وزیر اعظم کو بھی بِل کے دائرہ میں لانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔یہ مطالبہ صرف ایک ہی چیز ثابت کرتا ہے اور وہ یہ کہ ہم اخلاقی اورذہنی طور پر بالکل ننگے اور دیوالیہ ہوچکے ہیں،ہم اعتماد کھوچکے ہیں،نہ اپنے پر بھروسہ ہے اور نہ دوسرے پر اور ظاہر سی بات ہے آیئنہ آپ کی شکل جیسی رہے گی ویسا ہی دکھائے گا ۔ جب ہم وزیر اعظم بہ حیثیت ایک ادارہ پر بھروسہ نہیں کرسکتے تو پھر انّا اوران کےحواریوں پر کیوں؟جن لوک پال بل کے چئرمین پر کیوں؟اور ایک دوافراد کی بات ہی چھوڑیئے، اس پورے مجوزہ ادارے پر ہی کیوںبھروسہ کریں جس کا نام جن لوک پال ہے؟۔جب ہمیں کسی پر بھروسہ ہی نہیں ہےتو پھر اس ادارے پر کیوں؟ کیا اس ادارے کے افراد اس معاشرے سے نہیں آرہے ہیں جس کے بیشتر افراد کرپٹ ہیں اور جو باقی ہیں وہ مواقع کی تلاش میں ہیں،وہ ایماندار صرف اس لئے بچے ہوئے ہیں کہ انہیں بے ایمانی کرنے کا موقع نہیں ملا ۔ٹیم ہزارے جن لوک پال کو جس طور نافذ کرنے کا بچکانہ منصوبہ رکھتی ہےاس کے لئے ۳۵ ہزار افراد پر مشتمل عملہ کی ضرورت ہے،اب یہ ۳۵ ہزار افراد یا تو موجود ہ سرکاری ڈھانچے سے لائے جائیں یا پھر نئی بھرتی اور تقرری کے ذریعہ۔بہرحال وہ جہاں سے بھی آئیں گے وہ ہمارے ’کرپٹ ‘ معاشرے کے ہی رکن ہوں گے منزل من اللہ نہیں ۔اور یہ ۳۵ ہزار افراد؟ ان کی ایمانداری کی ضمانت کون لے گا؟ اور اگر ان کا سربراہ لوک پال کرپٹ نکلا تو؟ بقول کپل سبل ’ہزارے کہتے ہیں وہ ہم سمجھ لیں گے۔‘
ملک،قوم اور معاشرہ کسی ایک آدمی سے وجود میں نہیں آتا،ان کے رخ اور خدوخال کا تعین کوئی ایک آدمی نہیں کرتا،یہ ایک تاریخی اور تدریجی عمل ہوتا ہے۔آج ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں وہ تعمیروتخریب کے ایک طویل مرحلے سے گزرتا ہوا ہم تک پہونچا ہےاور تعمیروتخریب کے اس تاریخی عمل میں ہمارا کوئی رول نہیں رہاسوائے اس کے کہ پہلے ہمارے باپ دادا اس معاشرے میں سانس لیتے تھے اور اب ہم لے رہے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر اس معاشرے کی تشکیل ہم نے نہیں کی ہے یہ ہمیں اچھا برا جو بھی سہی تشکیل شدہ ملا ہے۔اب اگر اس معاشرے کے ۹۰ فیصد افراد کرپٹ ہیں تو یہ کوئی قابل فخر بات نہیں بلکہ یہ المیہ کبریٰ ہے اورالمیہ کا حل قانون نہیں ذاتی احتساب اور اصلاح ہےجوفرد واحد سے شروع ہوتا ہوا بتدریج اجتماعی شکل اختیار کرتا ہے۔قانون سے جرم نہیں رکتا،قانون جرم کی ایک پناہ گاہ ہےجہاں جرم وقت ضرورت قانون کے بسترکمخواب پرآرام فرماتا رہتا ہے۔
(نوٹ)انَّا سے ایک اپیل: ایروم شرمیلا کی حمایت میں بھی ایک دن انشن پر بیٹھ جایئے،ایروم کو شائد آپ نہ جانتے ہوں،اپنے حواریوں سے یا اپنی سول سوسائٹی سے پوچھ لیجئے گا وہ ضرور جانتے ہوں گے۔
سرخی مجروح سلطانپوری کے اس شعر سے ماخوذ ہے ؎ یارو مری گلکاریٔ وحشت کا صلہ کیا۔۔۔دیوانے کو اک حرف دل آویز بہت ہے