مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

دھند کے پار،،، ساحر حسیب

12033097_832710430160243_902959411078491716_n
۔
معاشرے افراد سے وجود پاتے ھیں ،اور معاشرے میں افراد کے مفید اور مثبت کردار کی تعمیر کی ذمہ داری ریاست پر ھوتی ھے، وہ اپنے نصبُ العین کی روشنی میں افراد کی شخصی تعلیم و تربیت کے لئے لائحہ عمل طے کرتی ھے اور پھر اسے قابلِ عمل بناکر فرد کو ریاست کا ایک ایسا حصہ بننے میں مدد دیتی ھےجو ریاستی استحکام میں مُمِدو مُعاوِن ثابت ھو سکے۔۔۔
ھماری بدقسمتی کہ ھم نے ایک ایسے خطہ زمین پر جنم لیا جو روزِ اوّل سے ھی اغیار کی ںظروں میں کھٹکتا رھا۔۔۔ اس تکلیف دیتے کانٹے کو نکالنے کے لئے ایک طویل المیعاد اور کثیر المقاصد لائحہ عمل ترتیب دے کراس جنت نما خطہء ارض پر جنہم بھڑکا دیا گيا ،
کسی بھی ریاست میں حکمران اور حکامِ بالا ریاست کا اھم ستون ھوتے ھیں، اگر کہا جائے کہ ریاست ان کے دم سےھی کھڑی ھوتی ھے تو کچھ غلط نہ ھو گا، اربابِ اختیار کی وفاداری ریاست کے استحکام میں بہت اھم کردار ادا کرتی ھے لیکن اس خطے کی بدقسمتی رھی ھے کہ اسے حکمران بھی ایسے ھی میسّر آئے جو ریاست سے زيادہ اپنے ذاتی مفاد کے کوشاں رھے اور یوں وہ بہت غیرمحسوس طریقے سے استعمار کے ھاتھ مضبوط کرتے گئے پھر ایک وقت ایسا آیا جب استعمار نے انھیں علی اعلان اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا۔۔۔
جب اربابِ اختیار نے اپنے آپ کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے گروی رکھا تو تعمیری عمل رک گيا بلکہ اک سوچی سمجھی سکیم کے تحت روک دیا گیا ، اس بات کو سمجھنے اور اس کا
،تدارک کرنے کے لئے تگ و دو شروع تو کی گئی لیکن بہت دیر ھو چکی تھی۔ ناسور ھماری روح میں اتر گیا تھا۔
ریاستی ڈھانچے کا دوسرا بڑا ستون عدلیہ ھوتی ھے، لیکن جب شخصی کردار سازی کا عمل رک جائے اور حکمران اپنے ذاتی مفاد کا حصول مقدم رکھیں تو عدلیہ کا اپنا کردار کمزور پڑ جاتا ھے اور وہ کماحقہُ اپنی ذمہ داریاں نبھا نہیں سکتی، معاشرے سے عدل و انصاف کا رخصت ھونا معاشرے میں مزید بے سکونی اور عدم استحکام کا سبب بنتا ھے اور ایسے عناصر کو پنپنےکا موقع ملتا ھے جو معاشرتی زندگی کو مزید بد رنگ اوربدصورت بنا دیتے ھیں
نشرو اشاعت کا ادارہ ریاست کا ایک اھم جزو تصور کیا جاتا ھے یہ ریاست کے فکروعمل کو عام کرنے اور اس کے بارے میں آگہی دینے ، اور افراد کی ذہنی سطح کو جلا بخشنے میں اپنا اھم کردار نبھاتا ھے،،،
لیکن یہ اھم ادارہ بھی افراد ھی سے تشکیل پاتا ھے انھیں افراد سے جو اس معاشرے کا حصہ ھیں جس کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جا چکا ھو اور وھاں لالچ، خود غرضی، ذاتی مفادات، اقربا پروری، خوف ڈراورنام و نمود کی دیمک چھوڑ دی گئی ھو جو ھمہ وقت اسے چاٹنے اور کھوکھلا کرنے میں لگي رھے تو کسی بھی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی اس کا عملی نمونہ آپ دیکھ چکے ھیں ھر چینل اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا کر بیٹھا ھوا ھے، نقار خانے میں طوطی کی آواز دب کر رہ گئی ھے ، ھر کوئی اپنی ساکھ اور اپنے نام و نمود کے لئے کام کرتا ھے، اور بیشتر پر اسی خونی استعمار کا دستِ شفقت ھے، آپا دھاپی کے اس ماحول میں کس کا ھاتھ کس گریبان ، اس کی کسے پرواہ ھے انھیں تو بس دوکان داری چمکانے سے غرض ھےوطن ھو یا انسانیت ، اس کے لئے خون دینے والے اور ھوا کرتے ھیں۔
کسی بھی احتسابی عمل کی غیر موجودگی ریاست کے ھر شعبے کی کارکردگی کو خراب کیا، تباہ کر سکتی ھے ، اور آج کا پاکستان آپ کے سامنے ھے، اس کا تشخّص کس بری طرح مسخ کیا گیاھے وہ بھی آپ جانتے ھیں،
لیکن اس سب کے باوجود کہ وطن عزیز کا ھر دکھ ھر باشعور کو رلاتا ھے، اس کی مرجھائی ھوئی صبحیں اور گدلائی ھوئی شامیں دل میں ایک ھوک سی اٹھا دیتی ھیں، بارش کے بعد مہکتی مٹّی کی خوشبو جب روح میں اترتی ھے توجیسے تشنگي مزيد بڑھ جاتی ھے، وہ گلیاں جہاں جینا اورسر اٹھا کر جینا تقریبا” نا ممکن ھے ،بد امنی اور بے علمی کے سرمئی سایوں نے اس کی شناخت کو بٹہ لگا دیاھے، پاکستان ھر پاکستانی کے دل کی دھڑکن ھے، ربّ کریم اس سوھنی دھرتی کو تا قیامت آباد رکھے

Leave a Comment